کالم

ڈگری کی قدر : علی سبحان

ڈگری کی قدر

 میرے مطابق کسی قوم کی ترقی و خوشحالی یا کامیابی اسی میں ہے کے اس کی عوام اپنے ملک کی حکومت یا حکمرانوں سے خوش ہوں۔ اب سوال یہ ہے کے ہم سب اپنی حکومت کی کاکردگی سے خوش ہیں؟ ہمارے کسان خوش ہیں؟ ہمارا مزدوردار طبقہ خوش ہے؟ ہمارے طالبعلم،ڈگری یافتہ نوجوان جو ہمارا مستقبل ہیں وہ خوش ہیں؟ در اصل یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا معیار روز بروز پسی کی طرف گامزن ہے۔ جس کے اثرات ہماری ملکی ترقی پر بھی نظر آ رہے ہیں اور ہماری ترقی کی راہیں مخدوش ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہم اپنی قومی ترقی کو جہالت کے اندھیرے میں ٹٹول رھے ہیں۔ بجاۓ اسکے کہ ہم علم کی روشنی سے ترقی کو پائیں اور یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ترقی کے خزینے کو علم کی روشنی کے بغیر پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔ ہم باقیوں کی کی بات نہیں کرتے ہم بات کرتے ہیں اپنے نوجوان طبقے کی جو ہمارا مستقبل ہیں۔ جو زندگی کے نشیب و فراز سے گزر کر، راتوں کو جاگ کے پڑہ کے محنت کر کے اپنی پڑہائ مکمل کر کے ڈگریاں حاصل کرتے ہیں کیا ان کو انکی محنت کا صلہ مل رھا ہے؟؟ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے” اعزازعلی” کی خودکشی کو جوکہ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا گریجوایٹ تھا۔ بلاشبہ وہ ایک ذہین طالبعلم تھا اسی لۓ ہی اس نے سوچا کہ ایک سال سے میں فارغ ہوں میں گھر والوں کو کیا دے رھا ھوں اسی وجہ سے وہ ڈپریشن کا شکار ھوگیا اور اپنی زندگی گنوادی۔ وہ 24 سال کا تھا جب وہ ایک مکینیکل انجینیر بنا۔ پورا ایک سال وہ ملازمت کی تلاش میں خوار ہوتا رہا۔ جب اس نے اپنی ڈگری مکمل کی ھوگی اس نے سوچا ہوگا کہ اب مجھے میری محنت کا پھل ملنے کا وقت آگیا ہے۔ اس نے سوچا ہوگا کہ اب میں اپنے خوابوں کو پورا کرسکوں گا۔ اب میں ملکی ترقی کا حصہ بن سکوں گا۔ لیکن اس کی ڈگری نے اسے کیا دیا؟ ڈپریشن، دباؤ،مستقبل کی سوچیں اورآخرکارموت۔ کیا اسکی کمائ ہوئ ڈگری کی قدروقیمت ڈپریشن تھی،سوچیں تھی یا پستول کی وہ گولی تھی جو اسکے دماغ کو چیرتی ہوئ سارے خوابوں کو ختم کرگئ۔ اسکی یہ ڈگری ایک ماں کوساری عمر کا دکھ دکھ دے گئ ساری عمرکا دکھ۔۔ ایک ماں جس کا صرف ایک ہی بچہ ہو وہ اعزازکے ساتھ جو ھا اسے دیکھ کے اپنے بیٹے کو پڑھاۓ گی؟ یقینا وہ یہی کہے گی کہ میں آدھی کھا لوں گی میرا بیٹا میری آنکھوں کے سامنے رھے۔ اس ماں کا کیا قصور جس کا جوان بیٹا نوکری کے ھاتھوں جان گنوادے۔ اس ملک کے منتظمین ان سوچوں سے ماورا ہیں یہ قتل ان کے سر ہے۔ ھمارے ملک میں دن بدن پیسے کی قدر زیادہ اورجان کی قدر کم ھورھی ھے۔ ہما رے یہا ں قدر صرف پیسے کی ہے یا پیسے والے کی۔ وہ دور گزر گیا جب پڑہای سب کچھ ہوتی تھی۔ حکمرانوں کو کیا پتا ڈگریاں کیسے حاصل کی جاتی ہیں۔ بچوں کی فیسیں پوری کرنے کیلۓ ماؤں کی بالیاں بک جاتی ہیں کئ باپ مقروض ہوجاتے ہیں صرف اس لۓ کے ان کے بچے پڑھ لکھ کر آفیسر بن سکیں لیکن وہ نہیں جانتے کے ان بچوں کو کامیاب بنانے کیلۓ ایک دفعہ پھر بالیاں بیچنی پڑیں گی ایک دفعہ پھر مقروض ہونا پڑے گا۔ ہمارے والدین ہمیں بہت مشکلات کو برداشت کر کے ہماری فیسیں بھرتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو نظرانداز کرکے ہمارے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ لیکن پتا نہیں کب ان سب کو ان کی محنت کا سود مند صلہ یا آؤٹ پٹ ملے گی اور لوگ ڈگری والے کی قدر کریں گے۔

اللہ سبحان وتعالی ہم سب کا حا می و ناصر ہو۔

کالم : علی سبحان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button