کالم

گھر گھر کی کہانی ایک نظر ادھر بھی

جب سے ہوش سنبھالا  اپنے  بڑوں کو گھر میں ہمیشہ ملک کی  بڑی جماعت کی تعریفوں کے پل باندھتے سنا جو کہ آج تک وہی روایت برقرار ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے کچھ عزیز تو ملک  کی اس بڑی  جماعت کے اتنے شیدائی ہیں کہ انہوں نے اپنے بچوں  کی کم عمر کو زیادہ کروا کر ان کے شناختی کارڈ تک بنوائے تھے صر ف اس لئے کہ  اقتدار میں انکی پسندیدہ جماعت کو ہی آنا چاہیے۔خیر ہمارے اباواجداد کی سوچ بھی کچھ کم نہیں وہ کہتے ہیں کہ  بچوں  ووٹ پر اصل حق تو  اس  سیاسی  پارٹی کا ہے کیوں انکے نزدیک اس  پارٹی   میں رجے'(رجے پنجابی کا ایک لفظ ہے جسکا مطلب ہےکسی چیز کی بھوک نہ ہونا)’ہوئے لوگ ہیں انکا خیال ہے۔  اگر کوئی نیا بندہ  آگیا   تو وہ تو ملک کو لوٹ کر کھا جائے گا اس لیے ووٹ تو ملک  کی بڑی   جماعت کو ہی دینا ہے کیو ں کہ انکے نزدیک جو شخص کھانا کھا کر بیٹھا ہو وہ دوسرے کے حصے پر نظر نہیں رکھتا۔پر ان سادہ دل اور سیدھی سادھی سوچ رکھنے والوں کو کیا پتہ کہ یہ  بڑی جماعت  والےایسے رجے ہوئے ہیں کہ اب مجھے بھی پنجابی کی ایک کہاوت یاد آ رہی ہے  وہ کہتے ہیں نہ "ٹڈ تے رج  گیا  پر اکھاں نیئں رج دیاں”بس اب آپ سمجھ تو گئے ہی ہوں گے ۔اس لیے جب بھی ووٹ دے سوچ سمجھ کر دیں کیو ں یہ آپ کا حق ہے اس لیے حق  حقدار تک۔ اور سچ  میں ویسے ہمارے ملک میں  تو ایک سے بڑھ کر ایک جماعت ہے کرپشن جتنی ہمارے   ملک میں ہوئی ہے اتنی میرے خیال سے کسی دوسرے ملک میں نہیں ہوتی آگے اللہ بہتر جانتا ہے ۔خیر میں آپ کو یہ بتاتی چلی کہ اوپر جن صاحب کا ذکر  کیا تھا آج ان کے بچے نوکری کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اس لیے خدارا میری ایسے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ کبھی بھی  دوسرے کے مفاد کے لیے اپنے بچوں کا مستقبل برباد نہ کریں۔  اس لیے جو آ ج آپ  کسی اور کے لیے محنت کر رہےہیں وہی آپ اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے کام کریں۔جو کل کو آپ کو بھی سکون دے اور آ پ کے عزیزوں کو بھی ۔آگے آپ کی مرضی ہےوہ کسی شاعر نے بھی تو خوب کہا ہے نہ

اب جس کے جی میں آئے وہ پائے روشنی

ہم نے تو دل جلا کہ سر عام رکھ دیاہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button