پاکستانی خبریں

حکومت ،افواج پاکستان اور عوام کا ’’جنگ نہیں امن‘‘ کا بیان پوری دنیا میں مقبول ہوچکا ہے

جیو نیوز کی اسپیشل ٹرانسمیشن جنگ نہیں امن میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری ،سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ،سابق وزیردفاع جنرل (ر)خالد لودھی ،سابق سفیرعبدالباسط ،تجزیہ کار محمل سرفراز اور عاصمہ ودود شریک گفتگو رہے۔شاہ محمودقریشی نے پاک بھارت تناؤ سے متعلق کہاکہ ہماری جنگ نہیں بلکہ امن کی خواہش ہے امن ہی سمجھداری کاراستہ ہے ۔ بھارت سے امن کیلئے اٹھنے والی آوازیں زور پکڑرہی ہیں ۔بھارت میں چھوٹا سا طبقہ سیاست کیلئے جنگ کا بیانیہ پیش کررہا ہے ۔جنگ کی صورت میں پورا خطہ تباہ ہوجائیگا ۔بین الاقوامی برادری کی مداخلت خوش آئند ہے اور تمام ممالک امن کو فروغ دینے کی بات کررہے ہیں ۔سعودی وزیر خارجہ کچھ روز بعد پاکستان آئیں گے سعودی عرب کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک میں امن قائم رہے۔ اوآئی سی نے مقبوضہ کشمیرمیں جاری مظالم اور بالاکوٹ حملے کی مذمت کی ہے ۔جنوبی ایشیا کا امن مقبوضہ وادی کے حل سے مشروط ہے ۔ خورشید قصوری نے کہا کہ
بھارت نے پاکستان پر ناکام حملہ کرکے مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھا دیا ہے ۔دنیا کو سمجھ آگیا کہ مسئلہ کشمیر خطے کے امن کیلئے حل ہونا چاہئے ۔حکومت ،افواج پاکستان اور عوام کا ’’جنگ نہیں امن‘‘ کا بیان پوری دنیا میں مقبول ہوچکا ہے ۔آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مختلف ممالک کے ہم منصب سے رابطہ کرکے انہیں ابھی پاکستان کی امن پالیسی سے متعلق آگاہ کیا ۔بھارت پر بین الاقوامی برادری کا مسئلہ کشمیرحل کرنے کیلئے دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔بھارت کی کشمیر میں کوئی حمایت نہیں بھارت بغیر کشمیریوں کے کشمیر چاہتا ہے ۔بھارت کیلئے مقبوضہ وادی میں قبضہ برقراررکھنا ناممکن ہوگیا ہے ۔ پلواما حملے کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر نے اس کی مذمت کی لیکن جب بھارت آپے سے باہر ہوا اور بالا کوٹ پر حملہ کیا گیا تو مودی حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوگئیں اور پھر بھارتی جہاز گراکر اور پائلٹ کو گرفتار کرکے مودی کی غلط فہمیاں دور کردی گئیں ۔ جنرل (ر)خالد لودھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے مثبت رویئے کا دنیا میں تو ضرور اثر ہوگا لیکن نریندر مودی اور ان کے حواریوں پر اس کا کوئی اثر ہوتا دکھائی نہیںدیتا ۔بھارت عالمی برادری کا بیانیہ نہیں مانتا ۔حالیہ ناکام حملوں کامقصدصرف بھارت میں الیکشن نہیں تھے بلکہ مقبوضہ وادی میں تحریک آزادی بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے ،پاکستان میں سی پیک جیسے ترقیاتی پروجیکٹ بن رہے ہیں بھارت ان عوامل کو برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے تجزیہ کار محمل سرفرازنے کہا بالا کوٹ میں پے لوڈ گرانے پر ترکی کے علاوہ کسی نے مذمتی بیان جاری نہیں کیا اور جب بھارت کو سبق سکھا یا گیا تو عالمی کھیلاڑی میدان میں آگئی ۔کیوں کہ ڈر تھا کہ کہیں بات نیوکلیئر وار تک نہ آجائے ۔ہمیں اوآئی سی میں میں جانا چاہئے تھا تاکہ ہم عالمی فورم پر اپنی آواز اٹھا تے ۔ناکام حملے کے بعد ہندوستان میں مخالف آوازیں کم تھیں لیکن مودی کے غیر سنجیدہ رویے کے بعد بھارت کی اپوزیشن پارٹیاں میدان میں آگئیں اور حکومت پر تنقید شروع ہوگئی۔پلواما حملے کے بعد مودی نہ پارلیمنٹ اور قوم سے کوئی خطاب نہیں کیا جبکہ پاکستان نے پارلیمنٹ اور دوبارقوم کو اعتماد میں لیا ۔بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کے ذمے دارانہ رویئے پر تعریف کی گئی جبکہ بھارت پر تنقید ہوئی ۔بھارتی میڈیا جنگ چاہتا ہے ۔ بھارت میں صحافی 300دہشتگردمارنے کے ثبوت مانگ رہے ہیں اور بھارتی فورسز کے پاس پیش کرنے کیلئے باتوں کے سواکچھ نہیں ہے ۔پاکستانی میڈیا نے امن کی بات کرکے دنیا کو زبردست پیغام دیا ہے ۔محبوبہ مفتی نے ٹھیک کہا ہے کہ دوہاتھیوں کے درمیان گھاس مسلی جاتی ہے ۔بھارتی پائلٹ کی رہائی پر محمل سرفراز نے کہا کہ 1999میں بھی پاکستان بھارتی پائلٹ کو رہا کر چکاہے لہٰذا پائلٹ کی رہائی پرعمران خان کو نومل انعام دینے کی باتیں نہیں ہونا چاہئیں ۔انڈیا معاشی طاقت بنتا جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا اسے اہمیت دے رہی ہے ۔ہمیں معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے بہتر تعلقات استوارکرنا ہوں گے ۔ بھارت میں سابق سفیر عبدالباسط نے کہا کہ ہماری سفارتکاری کا محور کشمیرہونا چاہئے کہ ہم صرف پاک بھارت امن کی بات کرتے رہتے ہیں اور بھارت یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلہ کو عالمی فورم پر نہ اٹھائے۔اوآئی سی کو کشمیر کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر اٹھا نا ہوگا۔ہمارا امن نہیں جنگ کا مؤقف بہت واضح ہے ۔لیکن بھارت سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کیلئے ہے ۔سفارتکاری کے ذریعے مقبوضہ کشمیرمیں جاری مظالم کو بند کرایا جاسکتا ہے۔ اگلا ایک ہفتہ بہت اہم ہے بھارت کبھی بھی جنگی جنون میں مبتلا ہوسکتا ہے ۔البتہ بھارتی الیکشن کمیشن کے الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد برف پگھلنے کا امکان ہے ۔مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی جدوجہد عالمی قوانین کے مطابق درست ہے ۔لہٰذا کشمیریوں کو دفاع کو دہشتگردی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔پاکستان نے پلواما حملے پر مذمتی بیان جاری کیا تو میں نے صاحب اقتدار افراد کی توجہ اس نقطے پر مبذول کرائی جس کے بعد ترجمان دفترخارجہ کی ویب سائٹ سے مذمتی بیان ہٹادیا گیا ۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی فخرامام کو بنانے کا فیصلہ بالکل درست ہے پاکستان کو پارلیمانی کمیٹیوں کو دنیا میں بھیج کر عالمی برادری کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مظالم پر دلائی جائے ۔بھارت میں سابق راچیف کہہ چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کا جنوبی حصہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button