بھارتی بونگیاں اور جزبا آزادی – حسن نثار
عادل سے عدل کی ایسی داستان لکھی کہ پورے ہندوستان میں کہرام مچ گیا اور پوری مودی سرکار انگاروں پر لوٹ رہی ہے۔ آگ اور خون کی یہ ہولی دراصل 2016میں شروع ہوئی جب نوعمر عادل اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ ہنستا کھیلتا سکول سے واپس آرہا تھا اور سیکورٹی اہلکاروں نے پتھرائو کرنے کے الزام میں انہیں پکڑ کے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا اور اس حادثہ نے عادل کی کایا ہی پلٹ کے رکھ دی۔ وہ گم سم رہنے لگا اور بھارتی فوج کے خلاف نفرت کا آتش فشاں اس کے سینے میں پلنے لگا، پھر یوں ہوا کہ گزشتہ سال 19 مارچ کو وہ گھر سے نکلا لیکن واپس نہیں آیا۔ عادل کے ماں باپ نے تین ماہ پاگلوں کی طرح اپنے لخت جگر کو تلاش کیا اور بالآخر تھک کر بیٹھ گئے……. معاف کیجئے میں یہ لکھنا تو بھول ہی گیا کہ گزشتہ سال بھارتی فوجیوں نے نہ صرف اس کا چھوٹا سا گھر مسمار کیا بلکہ خواتین کی بےحرمتی بھی کی تھی۔ عادل کی ماہ فہمیدہ، باپ غلام حسین ڈار کے علاوہ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ کبھی پاکستان نہیں گیا تھا۔ عادل کے والدین کے بیان پر بھارتی وزارت داخلہ خاموش ہے جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ مودی سرکار کی بے حسی اور ہٹ دھرمی اپنی جگہ لیکن اس بھیانک تصویر کا دوسرا رخ بھی قابلِ دید ہے۔ بھارتی فوج کے سینئر ریٹارڈ افسروں کا کہنا ہے کہ جمعرات کو پلوامہ حملہ میں جو 44 جوان مارے گئے، وہ اک ایسی فورس کا حصہ تھے جسے بہت کم سراہا جاتا ہے۔
ان کی تنخواہیں اور وسائل محدود ہیں، مارے جانے والوں کا تعلق بھارت کے دور دراز علاقوں، آسام اور تامل ناڈو وغیرہ سے ہے لیکن سینٹرل ریزرو پولیس میں ملازمت کی وجہ سے وہ بھارت کی خطرناک ترین فرنٹ لائن تک پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ بھارت کی ریگولرفوج کی نسبت سی آر پی ایف میں خود کشیوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے حالانکہ وہ فوج کے شانہ بشانہ لڑتے ہیں لیکن ان کی تنخواہیں، مراعات فوائد فوج سے کہیں کم ہیں۔ ایک جیسے حالات، ایک جیسی جگہ پر ایک جیسا کام کرنے کے باوجود اس عدم توازن پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک ریٹائرڈ افسر کہتا ہے کہ’دہم ایک جسم کی مانند ہیں لیکن دل کی اہمیت زیادہ ہونے کے سبب گھٹنے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا”نتیجہ یہ کہ انتہا پسند جنونی مودی سرکار کشمیری مسلمانوں پر ہی ظلم نہیں کررہی، ایسے اندرونی تضادات کا بھی شکار ہے جس کے اثرات بتدریج نمایاں ہوتے چلے جارہے ہیں۔ پلوامہ حملہ کا بہانہ بنا کر پاکستان سے موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ واپس لینے پر بھی خود بھارتی تجزیہ کار اپنی سرکار پر لعن طعن کررہے ہیں کہ اس فیصلہ میں بھی بھارت کا اپنا ہی نقصان ہے کیونکہ باہمی تجارت کا خلاصہ یہ رہا کہ بھارت نے پاکستان کو ایک ارب 81 کروڑ ڈالر کا مال بیچا جبکہ پاکستان کی برآمدات کا حجم صرف 41 کروڑ ڈالر تھا۔ اور تو اور پلوامہ حملہ کے حوالہ سے خود بھارت کا کردار نہ صرف مشکوک بلکہ اس کے اندر سے ایسے سوال اٹھ رہے ہیں کہ جہاں قدم قدم پر بھارتی فوج موجود ہے، حملہ آور اپنے ٹارگٹ یعنی قافلے تک کیسے پہنچ گیا اور اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ کہ اتنی بڑی مقدار میں بارود وہاں کیسے پہنچ گیا؟ان کے اپنے دانشوروں کی سنیے، راہول بیدی کا کہنا ہے کہ مودی پاکستان کے خلاف کچھ نہیں کرسکتے کہ ایک طرف پہاڑوں پر برف کی وجہ سے کارروائی ممکن نہیں اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کی طرف سے جنگجو آ ہی نہیں رہے یعنی ا س معاملہ میں کشمیر خود کفیل ہوچکا۔ منوہر جوشی کہتے ہیں کہ ایک طرف امریکہ کو افغانستان کے حوالہ سے پاکستان کی اشد ضرورت ہے، دوسری طرف چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ڈھکے چھپے نہیں، سفارتی آپشن یونہی غیر موثر ہوچکا۔ "تائمز آف انڈیا” جیسے معتبر بھارتی اخبار کی شہ سرخی بھی ہزار تجزیوں پر بھاری ہے۔ "مقامی نوجوان کا حملہ، مودی کا پاکستان پر الزام”غرضیکہ جس حوالہ سے دیکھیں سربکف کشمیریوں کی جدوجہد آزادی تیزی سے منطقی انجام کی طرف رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔
عرصہ پہلے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بھٹو نے الجزائر کے بومدین سے گفتگو کے دوران مسئلہ کشمیر پر گفتگو شروع کی تو بومدین یکسوئی اور تحمل کے ساتھ بھٹو صاحب کی باتیں سنتے اور سرہلاتے رہے۔ بھٹو صاحب نے بات مکمل کرلی تو بومدین نے کہا……”ذرا مرے ساتھ آئیے” بھٹو اٹھے تو بومدین انہیں ہال کے آخر پر موجود کھڑکیوں کی جانب لے گئے اور پردہ ہٹایا۔ سامنے ایک وسیع و عریض قبرستان تھا۔ بھٹو نے استفہامیہ انداز میں میزبان کو دیکھا تو بومدین نے دکھ بھرے لیکن فخریہ انداز میں کہا……”جس دن کشمیر کے عوام جاں باز حریت پسند الجزائریوں کی طرح اتنا بڑا قبرستان اپنی لاشوں سے آباد کردیں گے، دنیا کی کوئی طاقت ان کی آزادی کا رستہ نہیں روک سکے گی”۔ واقعی آزادی جیسی نعمت قراردادوں سے نہیں، لازوال بے مثال قربانیوں سے ملتی ہے۔ کشمیری قدم بہ قدم، مقتل بہ مقتل، کہو بہ کہو، لاش بہ لاش اپنی آزادی کی طرح جس جی داری سے بڑھ رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب کوئی مودی، کوئی موذی ان کا رستہ نہ روک سکے گا۔ بھارت کی بونگیاں اور کشمیریوں کی قربانیاں ہر رکاوٹ کو بہا لے جائیں گی۔