برفانی لومڑی کا ایسا کارنامہ جس نے کر دیا سب کو حیران
ایک کم عمر برفانی لومڑی صرف 76 دن میں 3506 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ناروے کے سوالبر جزائر سے شمالی کینیڈا تک جا پہنچی ہے۔
گرین لینڈ کے ایک اخبار کے مطابق ’لومڑی کے اس سفر پر سائنس دان انگشت بدنداں رہ گئے ہیں‘۔
ناروے کے پولر انسٹی ٹیوٹ میں موجود محقیقین نے اِس مادہ لومڑی کے سفر کا جائزہ لینے کے لیے اس پر جی پی ایس ٹریکر لگا دیا تھا۔ انھوں نے اسے گذشتہ سال مارچ سوالبر کے مرکزی جزیرے سپٹس برگن میں آزاد چھوڑ دیا تھا۔
جب خوراک کی تلاش میں یہ لومڑی مغرب کی جانب نکلی تب اس کی عمر ایک برس سے بھی کم تھی۔ اس نے گرین لینڈ کا 1512 کلومیٹر طویل سفر صرف 21 دنوں میں طے کیا اور اس کے فوراً بعد برفیلے علاقے میں پیدل چلتے ہوئے اپنے حیرت انگیز سفر کا دوسرا حصہ شروع کر دیا۔
جب یہ لومڑی سوالبر سے روانہ ہوئی تو سائنس دانوں نے اسے 76 دن بعد کینیڈا کے ایلزمیر جزیرے پر پایا۔ لومڑی نے اس دوران تقریباً 3500 کلومیٹر کا سفر برف پر پیدل چل کر طے کیا تھا۔
موٹی بالوں والی کھال کی مدد سے لومڑی بیرونی خطرات سے محفوظ رہتی ہے
’ہمیں یقین نہیں ہوا‘
فاصلے کی لمبائی سے زیادہ محقیقین لومڑی کی رفتار سے متاثر تھے۔ سائنس دانوں کے ایک اندازے کے مطابق یہ لومڑی ایک دن میں اوسطاً 46 کلومیٹر چلتی تھی، اور بعض دنوں میں اس نے اوسطاً 155 کلومیٹر فاصلہ بھی طے کیا۔
ایوا فگلی نارویگن انسٹی ٹیوٹ فار نیچر ریسرچ کے ارناڈ ٹیرکس کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ لومڑیاں قطبِ شمالی میں موسم کی تبدیلیوں کا سامنا کیسے کرتی ہیں۔
انھوں نے ناروے کے سرکاری چینل این آر کے کو بتایا کہ ’ہم شروع میں اپنے آنکھوں دیکھے پر یقین نہیں کر رہے تھے۔ ہمیں لگا کہ یہ (لومڑی) مر گئی ہوگی یا اسے کسی نے کشتی پر لاد دیا ہوگا۔ لیکن اس علاقے میں تو کوئی کشتیاں نہیں۔ ہم بہت حیران ہوئے تھے‘۔
اس سے پہلے کسی لومڑی کو اتنا طویل سفر اتنی تیزی سے طے کرتے ہوئے ریکارڈ نہیں کیا گیا۔
ایوا فگلی نے بتایا ’گرمیوں میں کافی خوراک ہوتی ہے لیکن سردیوں میں مشکل پیش آتی ہے۔ اسی دوران برفانی لومڑی خوراک کی تلاش اور بقا کے لیے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ لیکن اس مخصوص لومڑی نے ہماری تحقیق کا حصہ بنی دوسری لومڑیوں کے مقابلے میں کافی زیادہ سفر طے کرلیا ہے۔ یہاں سے اس چھوٹی سی مخلوق کی غیر معمولی صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‘
پولی انسٹی ٹیوٹ نے ایک گراف کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ لومڑی شمالی گرین لینڈ سے اپنے سفر کے دوران دو مرتبہ رکی۔
سائنس دانوں کے مطابق لومڑی نے ایسا اس لیے کیا ہوگا تاکہ بُرے موسم کے ٹلنے کا انتظار کیا جاسکے۔
ایسا ممکن ہے کیونکہ لومڑی اپنی بالوں والی کھال کے ذریعے برف اور ٹھنڈ سے محفوظ رہتی ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ لومڑی کو کسی تالاب میں کھانے کے لیے سمندری پرندے مل گئے ہوں گے۔
پولر انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ہمیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ لومڑی نے کینیڈا میں کیا کِیا کیونکہ فروری میں اس کا ٹرانسمیٹر کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔
مگر ایوا فگلی کے مطابق وہاں زندہ رہنے کے لیے لومڑی کو اپنی خوراک تبدیل کرنی پڑے گی۔ انھوں نے بتایا کہ ’ایلزمیر جزیرے پر لومڑیاں مچھلیوں کے بجائے لیمِنگز نامی چوہے کھا کر زندہ رہتی ہیں‘۔
قطبِ شمالی کے قریب علاقوں میں برف پگھلنے سے برفانی لومڑیوں کو مشکلات درپیش ہیں۔ مثال کے طور پر اب وہ آئس لینڈ نہیں جا سکتیں۔ آنے والے کچھ عرصے کے دوران سوالبر میں موجود لومڑیوں کی آبادی شاید بالکل اکیلی رہ جائے گی۔
ایوا فگلی نے این آر کے کو مزید بتایا کہ ابھی بھی امید ہے کہ ’سوالبر میں زیادہ درجہ حرارت سے شاید ہرنوں کی آبادی میں اضافہ ہوجائے گا، اور لومڑیاں (خوراک کے لیے) ان کی لاشیں اکٹھی کریں گی۔‘