پاکستانی خبریں

سندھ ہائیکورٹ کا میئر کراچی الیکشن میں تمام منتخب نمائندوں کی شرکت یقینی بنانے کا حکم

سندھ ہائی کورٹ نے حکومتِ سندھ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے گرفتار یو سی چیئرمین سمیت تمام منتخب نمائندوں کی 15 جون کو ہونے والے میئر کراچی کے الیکشن میں شرکت یقینی بنانے کا حکم دے دیا۔

میئر کراچی کے انتخاب میں منتخب یو سی چیئرمین کو حصہ لینے سے مبینہ طور پر روکے جانے کے خلاف جماعت اسلامی کی درخواست پر سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس یوسف علی سعید اور جسٹس عبدالرحمٰن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے لیے عدالت کے سامنے جماعت اسلامی کے وکیل عثمان فاروق اور سیف الدین ایڈووکیٹ پیش ہوئے، علاوہ ازیں الیکشن کمیشن کے وکیل اور حکومتِ سندھ کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

دورانِ سماعت حکومت سندھ نے تمام منتخب نمائندوں کو میئر کراچی کے انتخاب کے روز سٹی کونسل پہنچانے سے معذرت کرلی، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہم تمام منتخب افراد کو پہنچانے کی ذمہ داری نہیں لے سکتے۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا کہ 2 روز قبل بھی ایک یو سی چیئرمین کو گرفتار کرلیا گیا ہے، سٹی کونسل اور ٹاونز میں پولیس نے منتخب نمائندوں کو ہراساں کیا، پی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کو میئر اور ٹاونز کے انتخابات میں شرکت سے روکا جارہا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ابھی گرفتار ہونے والے یو سی چیئرمین کی الگ سے تفصیل پیش کریں، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمیشن کیا کررہا ہے؟

اس پر الیکشن کمیشن کی وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی واضح ہدایت ہے منتخب نمائندوں کو الیکشن عمل میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ گرفتار منتخب نمائندوں کو الیکشن ڈے پر متعلقہ فورم تک پہنچانے کی ذمہ داری لیتے ہیں، جو نمائندے گرفتار نہیں ان کی شرکت کی ذمہ داری ہماری نہیں۔

جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ شکست سے خوفزدہ پیپلز پارٹی انتظامی مشینری کو استعمال کررہی ہے، عدالت تمام منتخب نمائندوں کی شرکت کو یقینی بنانے کا حکم دے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جماعت اسلامی کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں اس لیے جھوٹے الزمات لگئے جارہے ہیں۔

دورانِ سماعت پولیس اور حکومت سندھ نے 4 گرفتار یو سی چیئرمین کی فہرست پیش کردی، پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق فردوس شمیم نقوی، عمردراز، سید امجد اور محمد مصطفیٰ مختلف مقدمات میں گرفتار ہیں، فردوس شمیم نقوی این آئی سی وی ڈی سکھر میں زیرِ علاج ہیں۔

دریں اثنا سندھ ہائی کورٹ نے میئر کراچی کے الیکشن میں تمام منتخب نمائندوں کی شرکت یقینی بنانے اور پی ٹی آئی کے تمام گرفتار یو سی چیئرمین کو میئر کے الیکشن کے لیے سٹی کونسل پہنچانے کا حکم دے دیا۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ حکومتِ سندھ گرفتار منتخب نمائندوں کو بحفاظت سٹی کونسل پہنچائے، الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق تمام منتخب نمائندوں کی میئر اور ٹائونز کے انتخابات میں شرکت یقینی بنائی جائے۔

واضح رہے کہ سٹی کونسل مجموعی طور پر 367 اراکین پر مشتمل ہے جن میں 246 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین براہ راست منتخب ہوئے اور 121 مخصوص نشستیں ہیں جو کہ 15 جنوری کے بلدیاتی انتخابات میں جیتی گئی یونین کونسلوں (یو سی) کی تعداد کے تناسب سے پارٹیوں کو الاٹ کی گئیں۔

ایک یوسی کا نتیجہ روک دیا گیا ہے، ایوان اب 366 اراکین پر مشتمل ہے اور 184 اراکین کی حمایت حاصل کرنے والی جماعت 15 جون کو کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔

حکام کے مطابق پیپلز پارٹی سٹی کونسل میں 155 نشستوں کے ساتھ واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے جس میں خواتین کے لیے 34 نشستیں، اقلیتوں، مزدوروں اور نوجوانوں کے لیے 5، ایک سیٹ خصوصی افراد اور ایک خواجہ سرا کے لیے مخصوص ہے۔

جماعت اسلامی (جے آئی) دوسری سب سے بڑی جماعت ہے جس کی مجموعی سیٹیں 130 نشستیں ہیں جن میں خواتین کی 29 شامل ہیں، 4 نشستیں مزدوروں، اقلیتوں اور نوجوانوں کے لیے اور ایک ایک خصوصی افراد اور خواجہ سراؤں کے لیے مخصوص ہے۔

پی ٹی آئی کو کل 63 نشستیں ملی ہیں جن میں خواتین کی 14سیٹیں شامل ہیں، 2 نشستیں مزدوروں، اقلیتوں اور نوجوانوں کے لیے اور ایک ایک معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے لیے مخصوص ہے۔

اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے کل 16 نشستیں حاصل کیں، جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ایف) کو 4 سیٹیں اور تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) نے ایک نشست حاصل کیں۔

پیپلز پارٹی کو پہلے ہی مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) کی حمایت حاصل ہے اور سٹی کونسل میں اسے مجموعی طور پر 175 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔

جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے میئر کراچی کے لیے اتحاد کیا ہے اور سٹی کونسل میں ان کی مجموعی تعداد 193 ہے۔

میئر کراچی کے انتخاب کے لیے پی ٹی آئی کی حمایت حاصل کرنے کے بعد جہاں نمبر گیم واضح طور پر جماعت اسلامی کے حق میں ہے وہیں پی پی پی کا اصرار ہے کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے متعدد یوسی چیئرمینوں نے ان سے رابطہ کیا اور واضح کیا کہ وہ جماعت اسلامی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سے ہارس ٹریڈنگ کے خدشات کے باعث جماعت اسلامی نے سندھ ہائی کورٹ سے بھی مطالبہ کیا کہ اس کے تمام اراکین، خاص طور پر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے اراکین کو آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔

Related Articles

Back to top button