پاکستانی خبریں

جسٹس عیسیٰ کےخلاف ریفرنس واپسی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس کریں گے

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال 10 اپریل کو وفاقی حکومت کی ’کیوریٹو ریویو پٹیشن‘ کو واپس لینے کی درخواست پر سماعت کریں گے، جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کی تھی۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں متعلقہ حکام کو کیوریٹو نظرثانی درخواست کی پیروی نہ کرنے اور درخواست واپس لینے کو کہا تھا۔

چیف جسٹس اپنے چیمبر میں کیوریٹیو ریو سے متعلق 12 درخواستوں پر سماعت کریں گے، ان میں حکومت کی جانب سے کیوریٹیو نظرِ ثانی پٹیشن کو واپس لینے کے لیے داخل کی گئی درخواست بھی شامل ہے۔

23 جون 2022 کو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک بیان دیا تھا جس میں کیوریٹو نظرثانی درخواست کو واپس لینے کا مشورہ دیا گیا تھا جو ان کے پیشرو ڈاکٹر فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔

پی ٹی آئی کی سابق حکومت نے سپریم کورٹ کے سامنے استدعا کی تھی کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس میں اس کے 26 اپریل 2021 کے اکثریتی فیصلے کو’صاف اور صریح طور پر غیر منصفانہ، مفاد عامہ اور عوامی بھلائی کے خلاف ہونے کی وجہ سے میدان میں نہیں چھوڑا جانا چاہیے ’۔

26 اپریل 2021 کو عدالت عظمیٰ نے 6-4 کی اکثریت سے 19 جون 2022 کے اپنے اس اکثریتی فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس میں عدالت نے ٹیکس حکام کو جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر تین غیر ملکی جائیدادوں کی تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

کیوریٹو اپیل صدر ڈاکٹر عارف علوی، سیکریٹری قانون کے توسط سے سابق وفاقی حکومت، سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم، سابق مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر وغیرہ کے جانب سے دائر کی گئی تھی۔

کیوریٹیو ریویو میں دلیل دی تھی کہ 26 اپریل کے اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے دروازے عام طور پر بند کر دیے ہیں اور ساتھ ہی ریکارڈ پر آنے والے الزامات اور معلومات کے حوالے سے جسٹس فائز عیسیٰ کے احتساب کے دروازے بھی بند کر دیے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ اکثریتی فیصلے نے عدالتی احتساب کے معیار کو بھی کمزور کر دیا تھا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو عدالتی آزادی کے نظریے کے پیچھے چھپنے کے لیے ڈھال فراہم کی گئی ہے تاکہ عدالتی احتساب سے بچ سکیں۔

اپیل کے مطابق اکثریتی فیصلہ اس بات پر زور دینے میں بھی ناکام رہا کہ حکام، ججوں، قاضیوں اور سرکاری ملازمین کا فرض ہے کہ وہ اپنے مالیات اور اثاثوں کی وضاحت کریں، جس کی ابتدا ہمارے مذہب اور شاندار ورثے کی مرہون منت ہے۔

اپیل میں زور دیا گیا تھا کہ سرکاری ملازمین، اہلکاروں، ججوں، قاضیوں وغیرہ کے قریبی رشتہ داروں جیسے ان کی شریک حیات اور زیر کفالت بچوں کے مالی معاملات کی بھی وضاحت ضروری ہے۔

مزید برآں اپیل کے مطابق اکثریتی فیصلے نے آرٹیکل 209 اور 211 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مبینہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار کو غصب کیا تھا اس لیے یہ واضح طور پر غیر آئینی ہے اور اس پر نظرثانی کی جا سکتی ہے کیونکہ آئین کے تحت یہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو کلیئر کر سکتی تھی۔

Related Articles

Back to top button