بین الاقوامی

فوج کی حمایت ختم، بولیویا کے صدر مستعفی

ملک کے آرمی چیف اور پولیس کی جانب سے حمایت واپس لینے اور دوبارہ انتخابات کے تنازع کے باعث 3 ہفتے سے جاری پرتشدد احتجاج کے بعد بولیویا کے صدر ایوو مورالز نے استعفیٰ دے دیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بولیوین صدر نے ٹیلی ویژن پر ایک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اپنے عہدہ صدارت سے استعفیٰ دیتا ہوں‘ جس کے باعث ملک بھر میں جشن شروع ہوگیا۔

خیال رہے کہ ایومورالز لاطینی امریکا کے سب سے طویل عرصے تک برسراقتدار رہنے والے صدر تھے جن کے استعفیٰ کے بعد قیادت کا خلا پیدا ہوگیا ہے۔

سابق صدر کے اعلان کے بعد بولیویا کے دارالحکومت لا پاز میں سڑکیں جشن منانے والوں سے بھر گئیں اور اس دوران آتش بازی بھی کی گئی۔

صدر کے خلاف احتجاج کرنے والے بولیونز کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کے کمانڈرز اور پولیس کی جانب سے بھی ایو مورالز سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

اس حوالے سے آرمی چیف ولیمز کلیمن نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ بھی ایوو مورالز سے امن و استحکام کو برقرار رکھنے اور بولیویا کی بہتری کے لیے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔

اس پر بات کرتے ہوئے انتخابات میں اپوزیشن کے مرکزی امیدوار اور سابق صدر کارلوس میسا نے کہا کہ ’بولیویا کے شہریوں نے ’دنیا کو سبق پڑھایا ہے‘کل بولیویا ایک نیا ملک ہوگا۔

سیکیورٹی اداروں کے ساتھ وزیروں اور اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے صدر کی حمایت ترک کرنے پر مخمصے کی صورت پیدا ہوگئی تھی۔

جس کے دوران میکسیکو کی جانب سے سابق بولیوین صدر کو پناہ دینے کے اعلان کے بعد 20 قانون سازوں اور حکومتی عہدیداروں نے میکسیکو کے سفارتکار کی رہائش گاہ پر پناہ لے لی۔

خیال رہے کہ ایوو مورالز کا تعلق قدیم کمیونٹی ایمارا سے ہے اور وہ خود کوکا کاشت کرنے والے کسان تھے جو بولیوا کے پہلے مقامی النسل صدر بنے تھے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے اپنی کارکردگی پر روشنی ڈال جس میں بھوک اور غربت کے خلاف غیر معمولی اقدامات اور 14 سال کے عرصے میں ملکی معیشت کو 3 گناہ تک پہنچا دینا شامل ہے۔

20 اکتوبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایو موالز کو صدارت کی چوتھی مدت ملی تھی جب انہیں انتہائی معمولی فرق سے کامیاب قرار دے دیا گیا تھا۔

تاہم اپوزیشن کا کہنا تھا کہ ووٹوں کی گنتی میں دھوکا ہوا اس کا نتیجہ 3 ہفتوں تک جاری رہنے والے احتجاج کی صورت میں نکلا جس کے دوران 3 افراد ہلاک جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔

بعدازاں آرگنائزیشن آف امریکن اسٹیٹس نے انتخابات کا آڈٹ کیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ انتخابات کے جس پہلو کی جانچ کی گئی اس میں بے ضابطگیاں پائی گئیں چاہے وہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہو، ووٹوں کی گنتی، بیلٹ کی تحویل یا شماریاتی اندازے ہوں۔

Related Articles

Back to top button