کاروباری خبریں

موبائل بیلنس پر صارفین سے آپریشنل اور سروسز فیس کی وصولی معطل

موبائل فون کمپنیوں نے موبائل بیلنس پر صارفین سے آپریشنل اور سروسز فیس کی وصولی روک دی۔

سپریم کورٹ کے احکامات پر موبائل کمپنیوں نے موبائل بیلنس پر عائد 7 سے 10 فیصد ٹیکس کم کردیا جس کے بعد اب یہ رقم صارفین کو فراہم کی جائے گی۔

چنانچہ اب 100 روپے کا موبائل بیلنس ری چارج کرنے پر آپریشنل اور سروسز چارجز کی مد میں 12 روپے 9 پیسے منہا نہیں کیے جائیں گے۔

یوں صارفین کو 100 روپے کے کارڈ پر 76 روپے 94 پیسے کے بجائے 88 روپے 90 پیسے موصول ہوں گے اور اب آپریشنل اور سروسز فیس کی ادائیگی کمپنیوں کے اکاؤنٹ سے کی جائے گی۔

اس بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی( پی ٹی اے) کے ترجمان خرم مہران نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے پیشِ نظر موبائل کمپنیز صرف 12.5 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ہی لاگو کرسکیں گی۔

عدالت عظمیٰ نے کمپنیوں کو 10 فیصد انتظامی اور سروسز چارجز ختم کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد جمعے سے اس حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے سروس چارجز ختم کردیے گئے۔

حکام کے مطابق موبائل بیلنس ریچارج پر ودہولڈنگ ٹیکس 12.5 فیصد اور سیلز ٹیکس 19.5 فیصد ہے۔

یاد رہے کہ 11 جون 2018 کو اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دیامربھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر سے متعلق متفرق سماعت کے دوران موبائل فون بیلنس پر ود ہولڈنگ ٹیکس، سیلز ٹیکس اور سروسز چارجز کی کٹوتی کو معطل کردیا تھا۔

عوامی شکایات پر سابق چیف جسٹس نے 3 مئی 2018 کو ایزی لوڈ اور اسکریچ کارڈ کے ذریعے موبائل فون بیلنس پر ٹیکسز اور دیگر چارجز کی کٹوتی سے متعلق کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 100 روپے کے موبائل کارڈ پر موبائل کمپنیاں 19.5 فیصد سیلز ٹیکس وصول کرتی ہیں (جو بیلنس کے استعمال پر منہا کیا جاتا ہے)، دس فیصد سروس چارجز اور 12.5 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس لیا جاتا ہے۔

بعدازاں 24 اپریل 2019 کو چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے موبائل بیلنس پر لاگو تمام ٹیکس بحال کردیے تھے۔

بینچ کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موبائل فون بیلنس پر ٹیکس کٹوتی پر دیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے اپنے 11 جون 2018 کے ٹیکس معطلی کے فیصلے میں نہ ہی وجہ کو بیان کیا اور نہ ہی اس طرح کے ٹیکس نافذ کرنے کے دائرہ کار کا تعین کیا گیا۔

تاہم جسٹس اعجاز الاحسن نے اس حوالے سے اختلافی ریمارکس دیے تھے کہ اس مقدمے میں ایسے شہریوں سے ٹیکس لیا جارہا تھا جو انکم ٹیکس کے دائرے میں نہیں آتے، ملک کے 13 لاکھ شہری ٹیکس دہندہ ہیں جبکہ 2 کروڑ سے زائد شہریوں سے موبائل ٹیکس لیا جارہا ہے۔

انہوں نے ریمارکس میں مزید کہا تھا کہ نان فائلرز شہریوں سے موبائل ٹیکس لینے کے خلاف مقدمہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے، ٹیکس دینے کی صلاحیت نہ رکھنے والوں سے انکم ٹیکس لینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت اپنے اختیارات کو درست اور مناسب طریقے سے استعمال کیا تھا۔

Related Articles

Back to top button