ٹیکنالوجی کی خبریں

سائنسدانوں کی بڑی کامیابی، اب آنکھوں کے بغیر بھی دیکھنا ممکن ہوگا

نابینا افراد کیلئے بڑی خوشخبری ہے کہ سائنسدان ایک ایسے طریقہ علاج کے ذریعے بینائی بحال کرنے کے قریب پہنچ گئے ہیں جس میں دیکھنے کیلئے آنکھوں کی ضرورت ہی نہیں ہوگی۔

جی ہاں نیدرلینڈز انسٹی ٹیوٹ فار نیورو سائنس (این آئی این) میں سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے دن رات محنت کے بعد ایسی ٹیکنالوجی تیار کرلی ہے جس کے ذریعے نابینا افراد کی بینائی بحال کی جاسکے گی۔

دراصل دہائیوں قبل یہ خیال تو سائنسدانوں کو آگیا تھا کہ دماغ کو برقی طریقے سے متحرک کرکے خاص طریقے کے ڈاٹس دکھائے جائیں لیکن تکنیکی رکاوٹوں کی وجہ سے آج تک یہ خیال حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا تھا اور اس طریقے سے محض روشنی اور اندھیرے کا فرق ہی دکھایا جاسکا تھا۔

یہ ٹیکنالوجی کیسے کام کرتی ہے؟

تاہم اب این آئی این کے ڈائریکٹر پیٹر روئیلف سیما کی سربراہی میں ٹیم نے امپلانٹ ٹیکنالوجی کا 2 بندروں پر کامیاب تجربہ کیا ہے جس کے تحت بصری قشر (VISUAL CORTEX) یعنی دماغ کا وہ حصہ جو دیکھنے سے متعلق ہوتا ہے، وہاں 1024 الیکٹروڈز نصب کیے گئے جس کے نتیجے میں پہلے سے بہتر معیار کی بینائی حاصل ہوئی۔

بصری قشر دماغ کے پچھلے حصے میں ہوتا ہے اور انسانوں اور دیگر جانوروں میں ایک جیسا ہی کام کرتا ہے۔

ان بندروں کو پہلے سے تربیت دی گئی تھی کہ وہ اپنی آنکھوں کو مخصوص سمت میں گھمائیں اور الیکٹروڈز نصب ہونے کے بعد جب انہوں نے مخصوص سمت میں اپنی آنکھوں کو حرکت دی تو انہیں مختلف اشکال جیسے حروف، لیکریں، ہلتے ہوئے دھبے وغیرہ دکھائی دیے جن کی کوالٹی ماضی کے مقابلے میں کافی بہتر تھی۔

اس طریقے سے دماغ کو یک رنگی تصاویر دکھانے میں تو بڑی کامیابی ملی ہے تاہم حقیقت سے قریب تر بصارت کا حصول اب بھی ایک چیلنج ہے۔

ڈیوائس کیسی ہوگی؟

ٹیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے اور ان کی ٹیم کے پاس اب اس اصول کا ثبوت بھی موجود ہے جس کے ذریعے ہم دنیا کے 4 کروڑ کے قریب نابینا افراد کیلئے نیورو پروستھیٹک ڈیوائس کی بنیاد رکھیں گے۔

اس ڈیوائس میں ایک کیمرہ ہوگا جسے نابینا شخص پہنے گا، یہ چشمے کی طرح بھی ہوسکتا ہے جس میں کیمرہ نصب ہوگا، یہ کیمرہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے جو بھی چیز اس کے سامنے ہوگی اس کا ایک مخصوص پیٹرن بناکر دماغ کو سگنل بھیجے گا، آسان لفظوں میں یہ کیمرہ ہی آنکھ کا کردار ادا کرے گا۔

این آئی این کی ٹیم کو برقی پرزوں کا سائز چھوٹے سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے کافی فائد ہوا ہے اور انہیں امید ہے کہ وہ آئندہ 3 برسوں میں انسانوں کیلئے یہ ڈیوائس تیار کرلیں گے۔

البتہ اس وقت بڑی پریشانی یہ ہے کہ ٹیم جو الیکٹروڈز استعمال کررہی ہے اس کیلئے سلیکون کی سوئی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایک سال تک تو ٹھیک کام کرتی ہے لیکن اس کے بعد ٹشو اس کے گرد بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں اور یہ کام کرنا بند کردیتی ہے۔

لہٰذا ٹیم ایسے مواد سے الیکٹروڈز کی تیاری پر کام کررہی ہے جسے انسانی جسم آسانی سے قبول کرسکے تاہم اس کا سب سے بہترین طریقہ وائرس لیس ڈیوائس ہی ہوگا۔

جب یہ ڈیوائس وائرس لیس ہوجائے گی تو انسانی کھوپڑی کے پیچھے ڈیوائس کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں ہوگی اور اس سے متاثرہ شخص میں انفیکشن کا خطرہ بھی کم ہوجائے گا۔

خوش قسمتی سے دماغ کے ساتھ ہم آہنگی سے کام کرنے والی وائر لیس ڈیوائسز کی تیاری میں روز بہ روز پیش رفت ہورہی ہے۔

کیا پیدائشی نابینا افراد بھی مستفید ہوں گے؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی سے فی الحال وہی لوگ مستفید ہوسکیں گے جو پیدائشی طور پر نابینا نہیں تھے اور کسی حادثے یا چوٹ کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوئے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص جو پیدائشی طور پر نابینا ہوتا ہے اس کے دماغ کا وہ حصہ جو بصارت کیلئے مختص ہوتا ہے وہ دیگر امور کی انجام دہی شروع کردیتا ہے تاہم وہ لوگ جو دیکھ سکتے ہیں اور کسی وجہ سے نابینا ہوگئے ان کا بصری قشر سگنل کا انتظار کرتا رہتا ہے اور جب اسے سگنل موصول ہو وہ دوبارہ کام شروع کردیتا ہے۔

Related Articles

Back to top button