ٹیکنالوجی کی خبریں

مریخ پر ہزاروں مربع کلومیٹرکےوسیع رقبے پرایسا کیا دریافت کرلی گئی،

امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ اس کے ماہرین نے مریخی سطح کا تفصیلی اور انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد وہاں ذخائر دریافت کرلیے ہیں۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کا کہنا ہے کہ اس کے ماہرین نے مریخی سطح کا تفصیلی اور انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد وہاں برف کے ذخائر دریافت کرلیے ہیں۔

اگر کسی قاری کے ذہن میں تھوڑا سا بھی ابہام باقی ہو تو یہ وہی برف ہے جو پانی کے منجمد ہونے کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق، تحقیقی جریدے ’’جیوفزیکل ریسرچ لیٹرز‘‘ کے تازہ شمارے میں ناسا کے سائنسدانوں پر مشتمل ٹیم کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اس دریافت کا اعلان کیا ہے۔

مریخ پر آبی برف (واٹر آئس) کا یہ قدرتی ذخیرہ اس سرخ سیارے کے جنوبی قطب کے قریب ہے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ برف مریخی سطح کے اندر، خاصی کم گہرائی پر موجود ہے؛ اور ممکنہ طور پر وہ صرف 2.4 سینٹی میٹر (ایک انچ) جتنی گہرائی میں موجود ہوسکتی ہے۔

ناسا کی جانب سے مریخ کی ایک تصویر بھی جاری کی گئی ہے جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مریخ پر آبی برف کا یہ ذخیرہ ہزاروں مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

واضح رہے کہ مریخ اگرچہ ایک خشک سیارہ ہے لیکن پھر بھی یہ زمین سے خاصی مماثلت رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی دوسرے سیارے پر انسانی بستیاں بسانے کا معاملہ درپیش ہوتا ہے تو سب سے پہلا نام مریخ کا لیا جاتا ہے۔

تاہم، اپنی موجودہ حالت میں یہ صرف انسان ہی نہیں بلکہ زندگی کی کسی بھی دوسری صورت کےلیے قابلِ رہائش نہیں۔

ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی جیسے بڑے ادارے بھی اپنی کوششوں میں مصروف ضرور ہیں لیکن چاند ہو یا مریخ، وہاں انسانی بستیاں بسانے کےلیے پانی کی وافر مقدار ضروری ہوگی۔

ماضی میں بھی مریخ پر آبی برف (واٹر آئس) دریافت کی جاچکی ہے لیکن ماہرین کو وہاں کسی ایسے مقام کی تلاش تھی جہاں انسان بردار خلائی جہاز اتر سکیں اور بستیاں بھی بسائی جاسکیں۔

یہ دریافت بھی ان ہی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

اگر غیرمعمولی حالات درپیش نہ ہوئے تو اور خلائی سفر کی ٹیکنالوجی ہماری توقعات کے مطابق کامیابی کی منزلیں طے کرتی رہی، تو بہت امکان ہے کہ انسان کے اوّلین قدم لگ بھگ 2040 سے 2050 کے درمیان مریخ تک پہنچ جائیں گے۔

مریخ پر برف کی بڑی مقدار میں موجودگی سے مریخ پر انسانی بستیاں بسانے کے نئے امکانات روشن ہوں گے اور کوئی بعید نہیں کہ امریکا کی دیکھا دیکھی دوسرے ممالک بھی وہاں کا رُخ کرنے لگیں۔

تاہم یہ سب باتیں امید افزاء ضرور ہیں لیکن ان کے پورا ہونے یا نہ ہونے میں بیک وقت سیکڑوں عوامل کا دخل ہوگا۔

Related Articles

Back to top button