کون ہوگا ون ڈے کرکٹ کا نیا چمپیئن؟ فیصلہ آج ہوگا
احمد آباد میں بنائے گئے دنیا کے سب سے بڑے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے اس میچ کے لیے ایک لاکھ 31 ہزار سے زائد تماشائیوں کی آمد متوقع ہے اور پاک-بھارت میچ کی طرح اس میچ میں بھی میدان میں 95فیصد سے زائد بھارتی تماشائی ہی موجود ہوں گے۔
یہ فائنل ٹورنامنٹ کی اب تک کی دو بہترین ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا جہاں بھارت کی ٹیم اب تک کھیلے جانے والے تمام 10 میچوں میں ناقابل شکست رہی ہے۔
دوسری جانب ٹورنامنٹ میں اپنے ابتدائی دونوں میچز ہارنے والی آسٹریلین ٹیم نے بعد میں شاندار انداز میں ایونٹ میں واپسی کی اور پھر پلٹ کر نہیں دیکھا اور لگاتار 8 فتوحات کے ساتھ سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔
اس ایونٹ میں بھارتی ٹیم کو ہرانا تمام ہی ٹیموں کے لیے بڑا مشکل مرحلہ رہا جہاں اب تک تمام میچ جیتنے والی روہت شرما الیون کی فارم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جن 5 میچوں میں پہلے بیٹنگ کی ان میں سے دو میں 350 سے زائد رنز بنائے اور ایک میچ میں پانچ وکٹوں پر 326 رنز بنائے۔
دنیا کی مضبوط ترین تصور کی جانے والی بھارتی بیٹنگ لائن اپ ہوم گراؤنڈ میں پورے جوبن پر نظر آئی جس کے اس ورلڈ کپ میں ابتدائی 5 میں سے چار بلے باز سنچریاں کر چکے ہیں جب کہ سنچری نہ بنانے والے شبمن گل کی اوسط بھی 50 سے زائد ہے۔
تاہم اس ایونٹ میں بھارت کی فتح اور دیگر ٹیموں پر واضح برتری ثابت کرنے میں سب سے اہم کردار بھارتی باؤلنگ لائن نے ادا کیا جس نے دو میچوں میں اپنے حریف کو 80 رنز سے کم پر ڈھیر کیا جب کہ دفاعی چمپیئن انگلینڈ کی ٹیم بھی ان کے خلاف صرف 130 رنز بنا سکی تھی۔
چار میچوں کے بعد ہاردک پانڈیا انجری کے سبب ورلڈ کپ سے باہر ہوئے تو بھارتی ٹیم کا توازن بگڑتا ہوا محسوس ہوا لیکن محمد شامی کی شمولیت بھارتی ٹیم کے لیے باعث رحمت ثابت ہوئی جن کے آنے کے بعد سے بھارتی باؤلنگ لائن کے سامنے کسی بھی مخالف بلے باز کے لیے ٹھہرنا تقریباً ناممکن ہو گیا۔
شامی اب تک صرف 6 میچوں میں 23 وکٹیں لے چکے ہیں اور خصوصاً انہوں نے سیمی فائنل جیسے اہم میچ میں 7 وکٹیں لے کر تن تنہا بھارتی باؤلنگ کا بوجھ اٹھاتے ہوئے نیوزی لینڈ کی بیٹنگ لائن تہس نہس کردی تھی۔
شامی کے علاوہ بمراہ کی نپی تلی باؤلنگ کے سامنے رنز بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے جنہوں نے اب تک صرف 3.98 کی اکانومی سے رنز دیے ہیں اور 18 کھلاڑیوں کو بھی آؤٹ کر چکے ہیں جبکہ فاسٹ باؤلرز کے بعد میزبان اسپنرز رویندرا جدیجا اور کلدیپ یادیو کا سامنا بھی بلے بازوں کے لیے کسی کڑے امتحان سے کم نہیں جو اب تک مجموعی طور پر 31 وکٹیں اپنے نام کر چکے ہیں۔
دوسری جانب آسٹریلیا کی ٹیم جب ابتدائی دو میچ ہاری تو اکثر ماہرین ٹیم کامبی نیشن اور آسٹریلین ٹیم کی قابلیت پر سوالات اٹھانے لگے لیکن اس کے بعد مضبوط اعصاب کے لیے مشہور کینگروز نے کسی عقاب کی مانند عالمی کپ مقابلوں میں واپسی کی اور واپس نہ مڑتے ہوئے لگاتار 8 میچوں میں فتح کے ساتھ سیدھا ناک آؤٹ مقابلوں میں قدم رکھ دیا۔
ٹریوس ہیڈ، مچل مارش اور ڈیوڈ وارنر کے ساتھ ساتھ گلین میکسویل اپنی فارم اور جارحانہ بیٹنگ سے ایونٹ میں اپنی ٹیم کو کئی میچوں میں شاندار فتوحات دلا چکے ہیں لیکن آسٹریلیا کے لیے لمحہ فکریہ مڈل آرڈر بلے بازوں اسٹیو اسمتھ اور مارنس لبوشین کی فارم ہے جن کا بلا اب تک ورلڈ کپ میں خاموش رہا ہے جبکہ وکٹ کیپر جوش انگلس بھی بلے سے کچھ خاطر خواہ کھیل پیش نہیں کر سکے۔
باؤلنگ میں آسٹریلیا کا فائنل میں انحصار ایک مرتبہ پھر اسپنر ایڈم زامپا پر ہو گا جو 22 وکٹیں لے کر ایونٹ کے دوسرے کامیاب ترین باؤلر ہیں اور اس ٹورنامنٹ میں کئی مواقع پر اہم وکٹیں لے کر انہوں نے کھیل کا پانسہ پلٹ دیا تھا۔
اسی طرح جوش ہیزل وڈ کی لائن اور لینتھ سے ابتدائی اوورز میں نمٹنا بھی بلے بازوں کے لیے آسان نہیں رہا اور اسٹارک کے ہمراہ ان کا ابتدائی اسپیل ورلڈ کپ فائنل میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
ورلڈ کپ میں اب تک کھیلے گئے میچوں کا جائزہ لیا جائے تو وکٹ سے قطع نظر دونوں اننگز میں پہلے پاور پلے کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہو گا کیونکہ اب تک کھیلے گئے میچوں میں پاور پلے کا بہترین استعمال کرنے والی ٹیمیں ہی کامیاب ہوئی ہیں۔
بھارتی ٹیم نے اب تک اپنے تمام میچوں میں پاور پلے کا عمدہ استعمال کیا اور کسی بھی میچ میں حریف باؤلرز ان کے لیے مشکلات کھڑی کرتے نظر نہیں آئے، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف میچ میں بھارت نے پاور پلے میں وکٹیں گنوائی تھیں اور ان دونوں ہی میچوں میں وہ بڑا اسکور نہیں کر سکے تھے۔
ایونٹ کے دونوں سیمی فائنل مقابلوں میں بھی پاور پلے میں بہترین کھیل پیش کرنے والی ٹیمیں ہی کامیابی سے ہمکنار ہوئیں، بھارت نے نیوزی لینڈ کے خلاف پاور پلے میں جارحانہ بیٹنگ کی اور پھر باؤلنگ میں ان کی ابتدائی 10 اوورز میں ہی 2 وکٹیں لے کر فتح کی بنیاد رکھی تھی۔
دوسرے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے پاور پلے میں دو وکٹیں گنوا کر صرف 18 رنز بنا سکی تھی لیکن اس کے برعکس کینگرو اوپنرز نے صرف 6 اوورز میں 60 رنز بنا کر بازی اپنی ٹیم کے حق میں پلٹ دی تھی۔
یہ میچ احمد آباد اسٹیڈیم میں اسی وکٹ پر کھیلا جائے گا جس پر پاکستان اور بھارت کی ٹیموں کے درمیان میچ ہوا تھا اور پہلے سے استعمال شدہ وکٹ استعمال ہو گی لہٰذا فائنل میچ میں زیادہ بڑا اسکور ہونے کا امکان نہیں ہے اور وکٹ اسپنرز کے لیے سازگار ثابت ہو سکتی ہے۔
بھارتی کپتان روہت شرما نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وکٹ پر تھوڑی گھاس نظر آ رہی ہے، پاکستان اور بھارت کے میچ کی وکٹ اس سے زیادہ خشک تھی البتہ اس وکٹ پر بھی گیند سلو رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ میچ میں اوس کے حوالے سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن ٹاس زیادہ اہم کردار ادا نہیں کرے گا۔
روہت شرما نے کہا کہ ہم نے میچ کے لیے فائنل الیون کا ابھی فیصلہ نہیں کیا اور اسکواڈ میں موجود 15 کھلاڑیوں میں سے کوئی بھی کل کھیل سکتا ہے، ہم وکٹ اور حریف ٹیم کی کمزوریوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی حتمی فیصلہ کریں گے۔
ہٹ مین کے نام سے مشہور بھارتی کپتان نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم سے کیا توقعات وابستہ ہیں، یہ ابھی سے نہیں بلکہ پہلے میچ سے ہی ایسا ہے، ہم نے ڈریسنگ روم کا ماحول پرسکون رکھنے کی کوشش کی ہے اور میدان میں بھی دباؤ برداشت کیا ہے۔
دوسری جانب آسٹریلین کپتان پیٹ کمنز نے تسلیم کیا کہ ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد تماشائیوں کے حامل نریندر مودی اسٹیڈیم میں ان کی ٹیم کو تماشائیوں کی زیادہ سپورٹ حاصل نہیں ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ میچ میں تماشائی ایک ہی ٹیم کو سپورٹ کریں گے لیکن کھیلوں میں اس سے زیادہ اطمینان بخش چیز اور کوئی نہیں ہوتی کہ آپ بحیثیت حریف میزبان ٹیم کے ہزاروں شائقین پر سکتہ طاری کر کے اسٹیڈیم میں سناٹا پھیلا دیں اور کل ہمارا یہی ہدف ہو گا۔