پاکستانی خبریں

حکومت جانتی ہے کہ انہیں سینیٹ میں اکثریت نہیں مل سکتی، بلاول بھٹو

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سندھ حکومت کی قربانی بھی دینی پڑے تو ہم تیار ہیں۔لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ حکومت گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ انہیں سینیٹ میں اکثریت نہیں مل سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اے پی ایس پر دہشتگردی ہمارے یادوں میں تازہ ہے، اس حکومت نے اے پی ایس کے بچوں کو لاوارث چھوڑا جس کی مذمت کرتے ہیں، کالعدم ٹی ٹی پی کا احسان اللہ احسان جو اے پی ایس کے واقعے میں ملوث تھا، جیل سے نکل کر بھگوڑا بنا ہوا ہے، یہ حکومت دہشتگردوں کو جیل میں ڈالنے میں ناکام ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ وزیراعظم 31 جنوری تک مستعفی ہو جائیں کیونکہ حکومت عوام کے مشکلات میں کمی کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہی، چینی ، آٹے کے بعد سوئی گیس کا بحران بھی سر اٹھانے کو ہے، افراط زر میں ہم خطے میں سب سے آگے ہیں۔

ان کا کہنا تھا پورے پاکستان کی آواز ہے کہ عمران خان کو جانا پڑے گا، پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم مستعفی ہوں۔

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف سے لاہور جیل میں ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ شہباز شریف سے ملاقات کا مقصد تعزیت کرنا تھا لیکن دو سیاستدان ملتے ہیں تو سیاسی بات بھی ہوتی ہے، شہباز شریف کے ساتھ ملاقات میں پی ڈی ایم کو مستحکم بنانے پر بات ہوئی۔

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے سندھ حکومت کی قربانی بھی دینی پڑے تو ہم تیار ہیں۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا مجھ سمیت ہم سب نے استعفے جمع کروانے کا فیصلہ کر لیا ہے، لانگ مارچ اور استعفوں کے ایٹم بم استعمال کرنے کے لیے حکمت عملی اپنائیں گے۔

ان کا کہنا تھا ہماری حکمت عملی یہی ہو گی کہ ملک عدم استحکام کا شکار نہ ہو، ہم حکومت کو موقع دے رہے ہیں کہ 31 جنوری تک مستعفی ہو جائے، 31 جنوری تک عمران خان مستعفی نہ ہوئے تو دمادم مست قلندر ہوگا جس سے اپوزیشن کو فائدہ اور حکومت کو نقصان ہو گا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا ہم مزاحمت اور مذاکرات دونوں کام جانتے ہیں لیکن اب بات کرنے کا وقت گزر چکا، اب ہم ان کا استعفیٰ لے رہے ہیں، اب ہم تحریک چلارہے ہیں اس وقت ہم کسی سے بات نہیں کر سکتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں جمہوری نظام کی کامیابی کے لیے ڈائیلاگ کی پالیسی بھی ضروری ہے، ہم پاکستان میں حقیقی جمہوریت بحال کرنا چاہتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button