پاکستانی خبریں

ایدھی شیلٹرز ہوم میں مقیم افراد کو اہلخانہ سے ملانے کیلئے کام شروع

ایدھی شیلٹرز ہوم کراچی میں مقیم افراد کو گھر والوں سے ملانے کے لیے کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ سٹیزن پولیس لیژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے شناخت پروجیکٹ کے تحت 90 سے زائد خواتین کے اہلخانہ کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔

سی پی ایل سی کے مطابق مختلف وجوہات کی بناء پر اہل خانہ سے بچھڑ جانے والے افراد کو اپنے پیاروں سے ملایا جائے گا۔ سی پی ایل سی شناخت پراجیکٹ کی ٹیم اہل خانہ کا سراغ ملنے پر بچھڑے ہوئے افراد کو اپنے پیاروں تک پہنچائے گی۔

سی پی ایل سی کے مطابق ابتدائی مرحلے میں 385 بے گھر خواتین کا ڈیٹا نادرا حکام کو بھیج گیا ہے۔ ایدھی ہوم میں مقیم افراد کے بائیو میٹرک کے ذریعے نادرا میں رجسٹرڈ خاندانوں کا سراغ لگا یا جارہا ہے۔

سی پی ایل سی حکام کے مطابق 1700 مرد وخواتین ایدھی شیلٹرز ہوم کراچی میں لاواراث کی طرح زندگی گزار ر ہے ہیں۔

خیال رہے کہ رواں سال کے شروع میں کراچی ساؤتھ زون پولیس نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے ہمراہ ایدھی شیلٹر ہوم پر چھاپہ مار سات بچیوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا تھا۔ شیلٹر ہوم میں بچیوں پر تشدد کے حوالے سے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر تھی۔

پولیس کے حوالے سے بتایا تھا کہ بچیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ٹیچر کے تشدد سے ایک بچی جاں بحق ہوگئی تھی۔ پولیس کے مطابق تھانہ کلفٹن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا اورصرف ان سات بچیوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا جن کی جانب سے شکایت کی گئی تھی۔

شیلٹر ہوم کے حوالے سے فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ دسمبر 2017 میں یعنی تین سال قبل ایدھی شیلٹر ہوم میں یہ افسوسناک واقع پیش آیا تھا کہ 150 لڑکیوں میں سے صرف سات نے کہا تھا کہ انہیں یہاں نہیں رہنا ہے۔

فیصل ایدھی کے مطابق لڑکیاں آپس میں لڑی تھیں لیکن قیصریٰ کی موت لڑائی کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ قیصریٰ چڑچڑے پن کا شکاراور ذہنی بیمار تھی۔

ہم نیوز کے مطابق فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ قیصریٰ کا علاج مختلف ڈاکٹروں نے کیا اور مجسٹریٹ کے ساتھ وہ لڑکیاں گئیں جو یہاں رہنا نہیں چاہتی تھیں۔

فیصل ایدھی نے دعویٰ کیا تھا کہ چھاپے کا معاملہ غلط فہمی کی وجہ سے پیش آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قیصریٰ کے علاج کی مکمل تفصیلات موجود ہیں اور اس کا انتقال بھی لڑائی کے کئی روز بعد ہوا تھا۔

ہم نیوز کے مطابق فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ قیصریٰ کے قتل کا الزام بھی مدیحہ پر لگا تھا جو وہیں رہتی ہیں۔

Related Articles

Back to top button