پاکستانی خبریں

احتیاط نہ کی تو دو ہفتوں میں کیسز پھر عروج کو پہنچ سکتے ہیں: اسد عمر

وفاقی وزر منصوبہ بندی نے کہا کہ اگر ہم نے کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے احتیاط نہیں کی تو اگلے دو ہفتوں میں حالات خدا نخواستہ پھر اسی نہج پر چل جائیں گے جب جون میں وبا کی پہلی لہر کا عروج تھا۔

این سی او سی کے اجلاس کے بعد معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ تعلیمی ادارے دو طریقوں سے چلیں گے، بچوں کے ہوم ورک کا کوئی طریقہ کار بنایا جائے گا تاکہ گھر میں ان کی پڑھائی چلتی رہے اور اس کی تفصیلات کا تعین صوبے کریں گے، ہر صوبہ اپنے حالات اور وسائل کے مطابق فیصلہ کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن اسکولوں کے پاس آن لائن سہولت ہے وہ آزاد ہوں گے کہ وہ اپنی کلاسیں آن لائن جاری رکھ سکیں، 25 دسمبر سے 10 جنوری تک موسم سرما کی تعطیلات ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر حالات ٹھیک رہے اور خطرناک ہوتی لہر پر ہم قابو پانے میں کامیاب ہوئے تو 11 جنوری تک اسکولوں کے کھلنے کا امکان ہے۔

این سی او سی کے اجلاس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ کیا گیا کہ بند کمروں کے اندر کھانے پینے کے ریسٹورنٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو اسکولوں کی طرح مشکل فیصلہ تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بند کمرے میں زیادہ لوگ موجود ہوں اور ماسک نہیں پہنے ہوں تو وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھتا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ این سی او سی کی جانب سے صوبوں کو تفصیلات بھیجوا دی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ علمائے کرام نے رمضان کے دوران حکومت کے ساتھ تعاون کیا تھا اور اب بھی صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ علمائے کرام سے رابطہ کرکے اسی طرح کا تعاون حاصل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے بڑے بڑے اجتماعات ہو رہے ہیں، ملک میں سیاست پر پابندی نہیں لیکن ذمہ داری کی بات ہے، دنیا کےامیر ترین اور ہمسایہ ملک بھارت میں بری طرح سے شہریوں کا روزگار چھن گیا ہے۔

اسد عمر نے کہا کہ ہم یہ نہیں چاہتے ہیں ایسے حالات پیدا ہوں جہاں لوگوں کی صحت اور روزگار خطرے پیدا ہوں، اگر ایسا کیا تو ہماری سیاست غرق ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے کورونا کی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا ہے اور امید ہے تمام سیاسی جماعتیں شریک ہوں گی جہاں بات کی جائے گی جبکہ ہمیں سیاست میں مقابلہ کرنے کے لیے کوئی پریشانی نہیں ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم نے اکتوبر میں کہا تھا جب کیسز کی شرح دو فیصد تھی اور خبردار کیا تھا کہ آگے حالات اس طرف جا رہی ہے، جس کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج ہم وہاں پہنچے ہیں جہاں ملک بھر 1750 سے زیادہ افراد کو آکسیجن درکار ہے اور یہ مختلف ہسپتالوں میں داخل ہیں، جون میں جب برے حالات تھے تو اس وقت 3300 سے 3500 افراد مختلف ہسپتالوں میں تھے

اسد عمر نے کہا کہ جس رفتار سے پچھلے تین ہفتوں سے کیسز کی شرح بڑھ رہی ہے اگر ہم نے اپنے رویے نہیں بدلے اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہیں کیا تو آج سے 2ہفتے بعد پھر اسی جگہ ہوں گے جہاں جون میں وبا کا عروج تھا، خدانخواستہ ہم وہاں جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں سے بھر پور اپیل ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں، مصافحہ کرنے گریز کریں لیکن لوگوں کو عزت سے سلام کریں، باہر جہاں لوگوں یا بند جگہ میں زیادہ لوگ ہوں وہاں ماسک پہنیں اور وقت ملے تو ہاتھ دھوتے رہیں اور دوسروں سے فاصلہ رکھیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز ملک بھر خاص طور پر تعلیمی اداروں میں کورونا وائرس کے کیسز کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں کو 26 نومبر سے بند کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اسلام آباد میں معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے پریس کانفرنس کی تھی جہاں فیصل سلطان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 7 فیصد سے زائد دیکھی گئی۔

شفقت محمود نے بتایا تھا کہ آج ہونے والے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کے اجلاس میں فیصلے کیے گئے کہ 26 نومبر سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، ٹیوشن سینٹرز بند کردیے جائیں گے تعلیمی اداروں میں طلبہ نہیں آئیں گے اور وہ گھروں سے تعلیم جاری رکھیں گے۔

وفاقی وزیر تعلیم نے کہا تھا کہ ہائر ایجوکیشن یونیورسٹیز فوری طور پر آن لائن تعلیم شروع کردیں گی جبکہ جامعات کے ہاسٹلز میں طلبہ کا ایک تہائی حصہ رہے گا، جس میں وہ طلبہ ہوں گے جو بیرون ملک سے آئے ہوئے یا جہاں انٹرنیٹ کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ پی ایچ ڈی طلبہ یا جنہیں لیب کا کام کرنا ہے تو انہیں یونیورسٹی بلانے سے متعلق جامعہ خود فیصلہ کریں گی۔

ڈاکٹر فیصل نے کہا تھا کہ کچھ انٹرنس امتحانات جیسے ایم ڈی کیٹ وغیرہ جو انٹری کے لیے ہیں وہ معمول کے مطابق جاری رہیں گے کیونکہ ان کا ایس او پیز اور ماسک کے ساتھ انتظام کرنا ممکن ہے اور اسے احتیاط کے ساتھ منعقد کیا جاسکتا ہے۔

Related Articles

Back to top button