پاکستانی خبریں

حکومت کا تعلیم سے محروم بچوں کے لیے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ منصوبہ

وزیر اعظم پاکستان کے تعلیمی وِژن کے مطابق نجی شعبہ بھی تعلیم سے محروم 25 ملین بچوں کو آئندہ 5 برسوں میں زیر تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے میدان میں آ گیا ہے۔

بین الاقوامی ماہر تعلیم عمر فاروقی نے آزاد کشمیر سے شروع ہونے والا پروجیکٹ پورے پاکستان میں پھیلانے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ 2021 تک تعلیم سے محروم رہ جانے والے بیش تر بچوں کو اسکول کی دہلیز تک لایا جا سکے۔

پاکستان میں اب بھی لاکھوں بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں، ان بچوں کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ ایسا تعلیمی پروجیکٹ شروع ہو چکا ہے جو انھیں زیور تعلیم سے آراستہ کر سکے گا۔

نجی شعبے میں شروع ہونے والا یہ تعلیمی پروجیکٹ ڈھائی کروڑ بچوں کو زیر تعلیم سے آراستہ کرے گا، جس کا آغاز آزاد کشمیر سے شروع ہو چکا ہے، علاوہ ازیں روزگار بس کے ذریعے اس پروجیکٹ کا حصہ بننے والے افراد کی رجسٹریشن آزاد کشمیر، اسلام آباد، لاہور اور ملتان کے بعد کراچی میں بھی شروع کی گئی ہے۔

اس منصوبے کے تحت 3 لاکھ افراد کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوں گے اور زیور تعلیم سے محروم بچے علم کی دہلیز پر قدم رکھیں گے، اس سلسلے میں عالمی تعلیمی و تکنیکی ادارے کوڈڈ مائنڈز نے پاکستان میں اپنے سفر کا آغاز کر دیا ہے، پروجیکٹ کے تحت اکیسویں صدی کے تقاضوں سے آراستہ بہترین ہنرمندانہ تعلیم کو عام کیا جائے گا۔

گزشتہ روز کوڈڈ مائنڈز کی جانب سے مقامی ہوٹل میں ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کوڈڈ مائنڈز گلوبل کے بانی صدر عمر فاروقی نے، ایم پی اے شرمیلا فاروقی، ایم پی اے ارسلان تاج، صدر آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی، ڈاکٹر ارشد وہرہ و دیگر شامل تھے۔

صدر کوڈڈ مائنڈز گلوبل کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر بچوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے آن لائن اور عملی تعلیم دیں گے، شرمیلا فاروقی کا کہنا تھا کہ اسکول سے باہر بچوں کو تعلیمی دھارے میں لانے کے لیے حکومت سندھ ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔

پی ٹی آئی کے ایم پی اے ارسلان تاج نے کہا کہ ماضی کی کچھ غلطیوں کی وجہ سے پاکستان ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے ہے، پرائمری تعلیم کے لیے سندھ میں صرف 49 ہزار اسکولز، سیکنڈری کے لیے 2 ہزار ہیں، ہمارا ڈراپ آؤٹ 69 لاکھ بنتا ہے، جب کہ 40 لاکھ بچے چائلڈ لیبر پر مجبور ہیں۔

ارسلان تاج نے کہا کہ والدین پڑھانا بھی چاہیں تو اسکول نہیں ملتے، طبقاتی نظام کے باعث ہمارے بچوں کے لیے مواقع محدود ہیں، معیاری تعلیم ایک مخصوص طبقے کے پاس ہے، ہر سال بجٹ اوپر لیکن تعلیمی معیار نیچے جا رہا ہے، اس پر بھی سوچنا ہوگا۔

Related Articles

Back to top button