پاکستانی خبریں

نیب مقدمات میں ملزمان کو طویل عرصے تک حراست میں رکھنا ناانصافی ہوگی، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے زیر التوا مقدمات کا نوٹس لیتے ہوئے نیب سے تاخیر کی وجوہات طلب کرلیں

جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں آمدن سےزائد اثاثہ جات کیس کی سماعت کی۔

ڈائریکٹر فوڈ پنجاب محمد اجمل کی درخواست ضمانت پر دلائل میں ملزم کے وکیل عابد ساقی نےکہا کہ ملزم 16 ماہ سےجیل میں قید ہے لیکن کیس شروع نہیں ہوسکا، وکیل نے بتایا کہ دیگر 80 ریفرنسز بھی زیرالتوا ہیں۔
جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیس کے میرٹ پر بات نہیں کرتا لیکن کرپشن کے الزام پر اتنا طویل عرصہ ملزم کو جیل میں نہیں رکھا جاسکتا۔

انہوں نے کہا کہ کرپشن کا الزام ہے تو جائیداد اور اکاؤنٹس منجمد اور پاسپورٹ ضبط کیا جاسکتا ہے ملزم کو جیل میں رکھنا کیوں ضروری ہے۔

جسٹس یحیٰ آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اس مقدمے سے پہلے کے 80 مقدمات زیر التوا ہیں تو اس ملزم کو اس دوران کیوں بند رکھا جائے۔

سماعت میں نیب پراسیکیوٹر عمران الحق نے کہا کہ اگر اس بات کو قاعدہ بنالیا جائے تو پھر ہر کوئی ضمانت حاصل کرلے گا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کل بھی چیف جسٹس نے حکم دیا ہے کہ مقدمات میں غیر ضروری تاخیر نہ کی جائے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالت میں چیف جسٹس کا حکم پڑھ کر سنایا۔

چنانچہ نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ نومبر میں مقدمے کے گواہان پر کارروائی مکمل کرلیں گے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ کرپشن انسانیت کے خلاف جرم نہیں ہے، ملزمان کو جیل میں رکھنے کا ضابطہ طے ہونا چاہیئے، ملزمان کو گرفتار کرنے کے علاوہ دیگر طریقے بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ نیب مقدمات میں ایسی غیرمعمولی تاخیر سے کہ جو اہانت آمیز اور المناک کیفیت کی مظہر ہوجائے اس پر ضمانت کےاصول و ضوابط طے ہونے چاہییں۔

عدالت نے نیب کے زیرالتوا مقدمات پر نوٹس لیتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل نیب اور پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین عابد ساقی کو عدالت کی معاونت کرنے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے کہا کہ نیب مقدمات میں ملزمان کو طویل عرصے تک حراست میں رکھنا ناانصافی ہوگی، البتہ نیب ملزمان کے کنڈکٹ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

سپریم کورٹ نے نیب سے نومبر کے تیسرے ہفتے تک لاہور کی احتساب عدالت میں ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات طلب کرلیں۔

عدالت نے ہدایت کی کہ آگاہ کیا جائے کہ استغاثہ کےتمام 38 گواہان کے بیانات کب تک ریکارڈ ہوں گے، عام طور پر نیب مقدمات میں تاخیر کیوں ہوتی ہے۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل ہی سپریم کورٹ نے تمام 24 احتساب عدالتوں کو کرپشن ریفرنسز میں فریقین کو کسی قسم کا التوا دیے بغیر سماعتوں میں تیزی لانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے احتساب عدالتوں کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ جتنی جلدی ممکن ہو مختلف گواہوں کے ثبوتوں کو ریکارڈ کرنے کو یقینی بنایا جائے۔

 

Related Articles

Back to top button