پاکستانی خبریں

زلزلہ 2005: بالاکوٹ کے علاقے پرانا سانگھڑ میں ڈیڑھ سو مویشی مرنے کے 15 سال بعد ویٹرنری کلینک قائم

پاکستان کی تاریخ کا بدترین زلزلہ جو 2005 میں آیاجس نے ہر طرف ہنستی کھیلتی دنیا کو اجاڑ دیا اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔

زلزلے سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے خیبر پختونخوا اور آزادکشمیر تھے جہاں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بن گئے جبکہ قیمتی املاک اور جانور بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔ اسکول کالجز یونیورسٹیز، گھر، ہسپتال چاہے انسانوں کے ہوں یا جانوروں کے ہوں کچھ بھی زلزلے کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ خیبرپختونخوا کے علاقے بالاکوٹ میں بھی کچھ ایسا ہی سماں تھا جہاں ہر طرف تباہی تھی اوہر کوئی بے یارومددگار ہو گیا تھا۔

بالاکوٹ کے علاقے پرانا سانگھڑ کے رہائشی محمد سلیم بتاتے ہیں کہ 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں- کچھ ہی لمحوں میں ہر طرف اموات اور تباہی تھی۔ ہمارا مکان تباہ ہوگیا۔ ہماری دو بھینسیں ، دو گائیں اور تین بکریاں مر گئیں۔ ہم نے اپنی بکھری زندگی کے ٹکڑوں کو چننے ، اپنے مکانات اور روزگار کی تعمیر نو کے لئے ، آگے بڑھنے کے لئے انتھک محنت کی۔ لیکن زلزلے کے بعد 10 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ، جس انداز میں اتنے سارے لوگوں نے چند منٹ میں اتنا سارا کچھ کھویا۔اس درد سے نکلنا اب تک مشکل ہے اور نہ ہی مکمل طور پر بحالی کا کام ہو سکا ہے۔

زلزلے کے 12 سال گزرنے کے بعد جب 2017 میں جب گل گھوٹو جو جانوروں کی مہلک ترین بیماری ہے جس سے جانوروں کے پھیپھڑے متاثر ہو جاتے ہیں اور اسی باعث سالانہ ہزاروں جانور موت کا شکار بھی ہوتے ہیں، سے گاؤں میں ڈیڑھ سو سے زائد جانور ہلاک ہوئے۔ بارانی علاقوں میں مویشیوں کو قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ مویشیوں کے مرنے سے خوف پھیل گیا۔ مقامی لوگوں نے ویٹرنری خدمات حاصل کرنے کیلیے فوری طور پر مقامی ڈائریکٹر لائیو اسٹاک سے رابطہ کیا۔ ڈائریکٹر نے کہا کہ ان کے پاس اتنے فنڈز نہیں ہیں اور انہوں نے ہمیں صوبائی یا قومی اسمبلی کے کسی ممبر سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا اور علاقہ مکینوں کو خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑا۔

علاقہ مکینوں نے جانوروں کی اس خطرناک بیماری کی روک تھام کے لیے کوششیں کی لیکن کوئی امید کی کرن نظر نہیں آ سکی۔

دسمبر 2017 میں میں مقامی سماجی تنظیم کے ساتھ مل کر ایک مرتبہ پھر ویٹرنری کے لیے کوششیں کی گئیں گاؤں کے مقامی لوگوں کا اجلاس بلایا گیا اور آس پاس کے دیہات کے لوگوں کو بھی شامل کیا اور ایک بار پھر ڈائریکٹر لائیو اسٹاک سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُنہوں نے کوئی حل نکالنے کا وعدہ کیا۔ علاقہ مکینوں کی جانب سے بار بار اور متحد ہو کر کوشش کرنے کے نتیجے میں دو ہفتوں میں ہی علاقہ مکینوں کی بات سن لی گئی جس کے بعد گائوں میں دو کمروں پر مشتمل جگہ تلاش کی گئی اور حکومت کی جانب سے اس جگہ کو کرایہ پر لیا گیا۔ ایک ڈاکٹر کو تعینات کیا گیا اور دوائیں بھی مہیّا کی گئیں۔ اب گائوں ویٹرنری خدمات تک رسائی حاصل ہے۔ روزآنہ کی بنیاد پر تقریباً 60 کے قریب جانور کلینک سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ فی جانور 20 روپے فیس مقرر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دوائیں مفت دی جاتی ہیں۔

Related Articles

Back to top button