پاکستانی خبریں

نیب میں طلب کرنے کا مقصد مجھے نقصان پہنچانا تھا: مریم نواز

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ آج جس ریاستی، حکومتی خوف، جبر اور دہشت گردی کا میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ میرے لیے یا مسلم لیگ (ن) کے لیے نہیں بلکہ اس جعلی اور سیلیکٹڈ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

انہوں نے یہ بات قومی احتساب بیورو (نیب) کی دفتر کے باہر مسلم لیگ (ن) اور پولیس کے درمیان ہنگامہ آرائی کے باعث پیشی منسوخ ہونے کے بعد ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔

پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، رانا ثنااللہ خان، مریم اورنگزیب،پرویز رشید، دانیال عزیز، طلال چوہدری، شائستہ پرویز ملک، محمد زبیر، ملک پرویز ، خواجہ عمران نذیر، چوہدری شہباز، غزالی سلیم بٹ، فیصل کھوکھر، ثانیہ عاشق، سلمیٰ بٹ اور شیزہ خواجہ بھی موجود تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جس طرح پر امن اور نہتے کارکنان پر پتھر برسائے گئے،اسپرے کیا گیا آنسو گیس پھینکی گئی اس سے متعدد کارکنان زخمی ہوئے میں اس کی بھرپور مذمت کرتی ہوں اور مسلم لیگ(ن) کے جو کارکنان میرے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے لیے جبر کا سامنا کرتے ہوئے وہاں کھڑے رہے انہیں سلام پیش کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ جب میری گاڑی نیب دفتر کے نزدیک پہنچی اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ دوسری جانب عوام کا سمندر موجود ہے تو اچانک آنسو گیس کی شیلنگ شروع ہوگئی جس سے گاڑی کے ساتھ موجود لوگ دور ہٹ گئے اور گاڑی اکیلی ہوگئی۔

اسی اثنا میں نیب دفتر کے بالکل سامنے، رکاوٹوں کے پیچھے سے میری گاڑی پر پتھراؤ ہوا، میری گاڑی بلٹ پروف گاڑی تھی اس کے باجود ونڈ اسکرین ٹوٹ گئی اور سیکیورٹی گارڈز نے بغیر کسی حفاظتی اشیا کے گاڑی کے سامنے گھڑے ہوکر میری حفاظت کی۔

رہنما مسلم لیگ(ن) نے کہا کہ نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ جو زمین میں نے خریدی تھی اس زمین پر قبضہ کیا تھا لیکن نیب کے طلبی کے نوٹس میں کوئی ایسا الزام موجود نہیں تھا۔

انہوں نے نیب کی جانب سے جاری نوٹس پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اس میں الزام کوئی نہیں ہے، بہت مبہم رکھا گیا ہے کیونکہ مجھے بلانا مقصود تھا اور اب میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ مجھے بلانے کے پیچھے مجھے نقصان پہنچانا مقصود تھا کیونکہ آج جو میرے ساتھ سلوک کیا گیا، میں پاکستان کے 72سال میں یہ ہوتے نہیں دیکھا۔

انہوں نے کہا کہ آج پرویز رشید صاحب میری گاڑی میں تھے اور جب ون ڈ اسکرین پر حملہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ شکر کرو کہ یہ بلٹ پروف گاڑی تھی، اگر یہ بلٹ پروف گاڑی نہ ہوتی تو شیشہ ٹوٹتا اور اس کے بعد پتھر میرے سر پر لگتے کیونکہ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

مریم نواز نے کہا کہ اگر یہ بلٹ پروف گاڑی نہ ہوتی تو سامنے سے پولیس کی وردی میں ملبوس افراد جو مجھے نہیں معلوم کہ پولیس کے تھے یا نہیں لیکن وہ پولیس کی یونیفارم میں تھے اور پنجاب پولیس عموماً ایسا نہیں کرتی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے موبائل فون پر ویڈیوز بنا لیں اور بطور ثبوت ان ویڈیوز کو ٹوئٹ کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو شیشہ ٹوٹنے کے بعد یہ پتھر مجھے لگتے اور یہ واضح طور پر مجھے جانی نقصان پہنچانے کی کوشش تھی یا شاید میرے سر پر چوٹیں آتی جس میں اس وقت میں ہسپتال میں زیر علاج ہوتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد انہوں نے مجھے غیرآفیشل ذرائع سے کہنا شروع کیا کہ آپ واپس چلی جائیں لیکن میں نے انکار کردیا، میں نیب کے دروازے کے باہر کھڑی رہی اور میں نے کہا کہ آپ نے مجھے نوٹس پر بلایا ہے تو میں جواب لے کر آئی ہوں۔

مسلم لیگ ن کی نائب صدر نے کہا کہ میں ڈیڑھ گھنٹہ وہاں رہی لیکن انہوں نے دروازہ نہیں کھولا اور اس موقع پر رانا ثنااللہ نے ان سے کہا کہ وہ واپس نہیں جائیں گی اور آپ لکھ کر دیں کہ ہم واپس چلے جائیں تو پہلے تو وہ تیار نہیں تھے لیکن پھر انہوں نے پریس ریلیز میں کہا کہ آج مریم نواز واپس جائیں، آج کی ان کی پیشی ملتوی ہو گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سوال وہاں کیے جاتے ہیں جہاں سوال کرنے والا کا کوئی کردار ہو، نیب کا کردار ہیں پہلے سے ہی پتہ تھا، نواز شریف، رانا ثنااللہ، شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز، سعد رفیق اور نیب گردی کا نشانہ بنانے والے ہمارے رہنماؤں کو پہلے سے پتہ تھا لیکن نیب ان ہتھکنڈوں پر مہر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے اپنے رمارکس اور اپنے فیصلوں کے ذریعے لگا دی ہیں اور رہی سہی کسر ہیومن رائٹس واچ نے پوری کردی جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا کہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ، سیاسی انتقام، مخالفین کو بلیک میل اور دبانے کے لیے اور حکومت کو برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

مریم نواز نے کہا کہ ایسے نیب کے سامنے پیش نہ ہونا شاید قانون کی زیادہ پاسداری ہو گی کیونکہ نیب تو ان ریمارکس اور حربوں کے بعد نیب تو اب خود ایک مطلوب ادارہ ہے، نیب کو تو اب خود جواب دینے ہیں کہ انہوں نے پاکستانی خزانے کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے بے دریغ استعمال کیوں کیا، کیوں نیب نے اس پیسے کے ذریعے مخالفین کی جوڑ توڑ کی، سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور حکومت کی مدد کی۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی میر شکیل الرحمٰن کا کیس لے لیں، ایک وزیر موصوف فرما رہے تھے کہ میں عمران خان صاحب سے یہ درخواست کروں گا کہ میر شکیل الرحمٰن کو چھوڑ دیں، تو 140دن سے حبس بے جا میں موجود میر شکیل الرحمٰن کو کیا عمران خان صاحب نے پکڑا ہے، ان کو تو نیب نے پکڑا ہے اور کیا عمران خان کے کہنے پر نیب ان کو چھوڑ دے گی۔

اس موقع پر مسلم لیگ ن کی رہنما نے قومی احتساب بیرو پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ نیب کا اصول یہ ہے کہ ناانصافی صرف ہونی نہیں چاہیے بلکہ ہوتے ہوئے نظر بھی آنی چاہیے اور اب ان کا اصول ہے کہ دہشت گردی صرف ہونی نہیں چاہیے بلکہ آج پوری دنیا نے جیسے دیکھا، ہوتی ہوئی نظر بھی آنی چاہیے

خیال رہے کہ نیب نے اراضی سے متعلق کیس میں نیب نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو طلب کر رکھا تھا، ان کی پیش کے موقع پر کارکنان کی بڑی تعداد ان کے ہمراہ نیب دفتر کی جانب روانہ ہوئی تھی۔

دوسری جانب نیب دفتر کے اطراف میں پولیس نے رکاوٹیں لگا کر سڑکیں بند رکھی تھی جس پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنان مشتعل ہوگئے اور پھر کارکنان اور پولیس دونوں کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا۔

علاوہ ازیں پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سے صورتحال سخت کشیدہ ہوگئی تھی جس کے باعث نیب نے ان کی پیشی منسوخ کردی۔

بعدازاں ایک باضابطہ اعلامیے میں نیب نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا اعلان کیا۔

Related Articles

Back to top button