پاکستانی خبریں

عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی پہلی بار منظر عام پر، 198‌ قتل کا اعتراف

لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے تیار کی گئی۔

عزیربلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ 36 صفحات پر مشتمل ہے جس میں اس کی فیملی کی تفصیلات بھی شامل ہیں جب کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں عزیر بلوچ کے 20 سے زائد دوستوں اور 16 رکنی اسٹاف کا بھی ذکر ہے۔

رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے 198 قتل کی وارداتوں کا اعتراف کیا اور قتل کی یہ وارداتیں لسانی اورسیاسی بنیادوں پر کی گئیں، عزیر بلوچ گینگ وار میں براہ راست ملوث تھا جسے 2006 میں بھی ٹھٹھہ کے علاقے چوہڑ جمالی سے گرفتار کیا گیا، 7 کیسز میں چالان کیاگیا اور وہ 10 ماہ جیل میں رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عزیر بلوچ نے 2008 سے 2013 کے دوران مختلف ہتھیار خریدنے کا انکشاف کیا جب کہ ملزم متعدد پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے قتل میں بھی ملوث ہے۔

جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے بابا لاڈلہ اور جبار لنگڑا کے ذریعے رزاق کمانڈو کے بھائی کو 2010 میں قتل کرانے اور شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں لسانی بنیادوں پر قتل کا اعتراف کیا جب کہ شیر شاہ کباڑی مارکیٹ میں قتل عام مخالف سیاسی جماعت کو بھتا دینے کے شبے پر کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم نے 6 نومبر 2012 کو پیپلزپارٹی کے ملک محمد خان کو بھی قتل کرایا۔

پی پی رہنما کو لیاری کے علاقے آٹھ چوک پر اس وقت فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا جب وہ لیاری میں گینگ وار کیخلاف ہونے والے ایک مظاہرے کی قیادت کررہے تھے۔

عزیر بلوچ نے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے مارچ 2013 میں ارشد پپو کو قتل کرانے کا اعتراف کیا اور بتایا کہ ارشد پپو کے قتل میں کئی پولیس انسپکٹرز کی مدد لی، ارشد پپو اور دیگر مغویوں کو آدم ٹی گودام میں لایاگیا جہاں ارشد پپو اور اس کے 2 ساتھیوں کو قتل کرکے لاش گٹرمیں بہا دی تھی۔

جی آئی ٹی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ نے 2012 میں لیاری آپریشن کے دوران کارندوں کو پولیس کے خلاف مزاحمت کا بھی حکم دیا۔

جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عزیر نے اثر و رسوخ کی بنیاد پر 7 ایس ایچ اوز تعینات کرائے جب کہ ملزم کے بیرون ملک فرار کے باوجود ماہانہ لاکھوں روپے بھتا دبئی بھیجا جاتا رہا۔

ملزم کے پاکستان اور دبئی میں غیر قانونی طریقے سے بنائے گئے اثاثوں کا انکشاف ہوا ہے۔

عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کے سامنے ایران فرار ہوکر ایرانی پاسپورٹ اور این آئی سی بنوانے کا بھی اعتراف کیا ہے۔

عزیر بلوچ نے بتایا کہ ایران میں رہائش پذیر اس کی خالہ نے پاسپورٹ بنوانےمیں مدد کی، مند سے تعلق رکھنے والے حاجی نثار نے ایران میں رہائش دی،

عزیر بلوچ نے اعتراف کیا کہ حاجی نثار نے ہی ایرانی انٹیلی جنس سے ملاقات کرائی ، ایرانی انٹیلی جنس نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز سے متعلق معلومات دینے کا کہا۔

یاد رہے کہ عزیر بلوچ کو 30 جنوری 2016 کو کراچی کے مضافاتی علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا اور اب وہ کراچی کی سینٹرل جیل میں قید ہے۔

زنسداد دہشت گردی کی عدالت نے رینجرز کی پیش کردہ رپورٹ کی بنیاد پر عزیر بلوچ کو 90 روز ہ ریمانڈ پر رینجرز کے حوالے کیا تھا اور ساتھ ہی ملزم سے تفتیش کیلئے جے آئی ٹی بنانے کا بھی حکم دیا تھا۔ عزیر بلوچ کے سر کی قیمت بیس لاکھ روپے مقرر تھی۔

خیال رہے کہ سندھ حکومت نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیز بلوچ، سابق چیئرمین فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ منظر عام پر لانے کا اعلان کیاہے۔

یہ رپورٹس پیر کو وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوں گی۔

Related Articles

Back to top button