پاکستانی خبریں

مساجد کو کیوں بند کرنا پڑے گا؟ وزیراعظم عمران خان نے بتا دیا

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کو زبردستی مساجد میں جانے سے نہیں روک سکتے لیکن اگر رمضان المبارک میں کورونا وائرس پھیلا تو مساجد کو بند کرنا پڑے گا۔

کورونا وائرس کے حوالے سے میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ جن ممالک میں روزانہ دن میں پانچ، پانچ سو لوگ مر رہے ہیں اور امریکا میں روزانہ 2 ہزار سے زائد لوگ مر رہے ہیں وہاں اب لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے بات ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان ملکوں میں بحث چل رہی ہے کہ ایک طرف عوام کو کورونا سے بچانے کے لیے لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے اور دوسری جانب اس لاک ڈاؤن کے معاشرے پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اب ان ملکوں میں بھی بحث بحث چل رہی ہے کہ لاک ڈاؤن میں کتنی نرمی کی جائے تاکہ لوگوں کو بھی کورونا سے بچایا جا سکے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جن ملکوں میں دن میں 500، 600 لوگ مر رہے ہیں، انہوں نے بھی لاک ڈاؤن میں نرمی کا فیصلہ کیا ہے، کئی چیزیں کھول دی ہیں، آسانیاں پیدا کی ہیں تاکہ لوگ باہر نکل سکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے 192 لوگ فوت ہوچکے ہیں لیکن اس کا امریکا سے موازنہ کر لیں جہاں 40 ہزار لوگ کورونا کی وجہ سے مرچکے ہیں جبکہ اٹلی اسپین میں بھی 20، 20 ہزار لوگ مر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یہ ملک لاک ڈاؤن میں نرمی کا سوچ رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے میں لاک ڈاؤن غیر معینہ مدت تک نہیں چل سکتا کیونکہ کسی کو بھی نہیں پتہ کہ اس پر قابو پانے میں کتنا وقت لگے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کسی کو بھی نہیں پتہ کہ ایک یا دو مہینے کے بعد کیا ہو گا اور یہ بھی نہیں پتہ کہ اگر بالفرض آج یہ کیسز کم بھی ہو گئے تو ان کے ایک مہینے بعد دوبارہ بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے دنیا کی تمام اقوام لاک ڈاؤن کر کے عوام کو بچانے کے ساتھ ساتھ ملک چلانے کے بارے میں بھی سوچ رہی ہیں۔

وزیر اعظم نے مساجد بند نہ کرنے کے فیصلے کا بھی دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک آزاد قوم ہیں، جب پولیس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈنڈوں سے مار رہی تھی تو مجھے یہ دیکھ کر کافی تکلیف ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ رمضان عبادت کا وقت ہے، ہماری قوم مساجد میں جانا چاہتی ہے تو کیا ہم ان لوگوں کو زبردستی کہیں کہ آپ مساجد میں نہ جائیں اور کیا پولیس مساجد میں جانے والوں کو جیلوں میں ڈالے گی؟ ایک آزاد معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ لوگ خود فیصلہ کرتے ہیں کہ ملک کے لیے کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی جنگ پورا ملک لڑ رہا ہے، یہ امیر غریب یا طاقتور کمزور کسی کو بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ضروری یہ ہے کہ لوگ خود اس جنگ میں شرکت کریں اور یہ تب ہی جیتی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے علما سے ملاقاتیں اور مشاورت کی، صدر مملکت عارف علوی نے علما کے ساتھ بیٹھ کر 20 نکات پر اتفاق کیا جن پر عمل کر کے ہی اب لوگ مساجد میں جا سکیں گے۔

وزیراعظم نے رمضان میں تمام پاکستانیوں سے گھروں میں بیٹھ کر عبادت کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے باقی مسلمان ممالک میں بھی عوام کو گھروں میں عبادت کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے لیکن اگر مسجد میں جانا ہے تو طے شدہ شرائط پر پورا عمل کرنا ہو گا اور اگر رمضان میں وائرس پھیلتا ہے تو ہمیں ایکشن لیتے ہوئے مساجد کو بند کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان میں فیصلہ کیا کہ سیمنٹ انڈسٹری سے شروع کریں اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آہستہ آہستہ مزید صنعتیں کھولیں اور تمام صوبوں سے مشاورت کے بعد اس عمل کو توسیع دے رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ مغرب، یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کو معیشت کو ٹھیک کرنے کا مسئلہ درپیش ہے اور ہمارا مسئلہ ہے کہ ہماری معیشت جس مشکل وقت میں پھنس گئی ہے تو ہمیں اپنے لوگوں کو غربت اور بھوک سے بچانا ہے۔

انہوں نے مزید کہ اپنے ملک کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم مسلسل آپس میں مشاورت کررہے ہیں کہ کس طرح سے ہم اپنے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے واضح کیا کہ ٹائیگر فورس میں شامل افراد رضاکارانہ بنیادوں پر کام کریں گے اور ان کو کسی بھی قسم کی تنخواہ یا رقم ادا نہیں کی جائے گی جبکہ یہ افراد غریب لوگوں تک پہنچ کر انہیں راشن وغیرہ فراہم کریں گے۔

 اسد عمر

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا کہ ہم نے پائلٹ پراجیکٹ شروع کیا تھا اور اس کےنتائج آںے کے بعد ہم نے تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے اس بارے میں مشاورت کی جس کے بعد ہم نے اس کی منظوری دے دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اسمارٹ لاک ڈاؤن کی طرف جا رہے ہیں جس میں بیمار افراد تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی اور ان سے جن افراد کا رابطہ ہوا ہے ان کے بھی ٹیسٹ کیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 21کروڑ عوام کا ملک ہے اور ہمیں اسے ہر ڈسٹرکٹ، ہر تحصیل، ہر یونین کونسل تک لے کر جانا ہے جس کے لیے نظام تیار کیا جا چکا ہے۔

اس موقع پر انہوں نے پڑوسی ملک بھارت کے نام پیغام میں کہا کہ دنیا بھر میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہے اور تمام ممالک اپنے شہریوں کے لیے زندگیاں محفوظ اور آسان بنانے پر غور کر رہے ہیں لیکن اس ماحول میں وہاں ایک انتہائی مضحکہ خیز بیانیہ جنم لے چکا ہے کہ پاکستان آزاد جموں و کشمیر کے ذریعے کورونا کے مریض ہندوستان بھیج رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے کہا کہ مودی صاحب نے وہاں ایک جگہ 10، 15ہزار لوگوں کو جمع کر کے جس طرح وبا کو پھیلایا اس کو ساری دنیا نے دکھایا لہٰذا پاکستان کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور وزیر اعظم کی پہلی تقریر سے ہم خطے میں بھائی چارے کے ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسد عمر نے بھارت سے درخواست کی کہ اپنے شہریوں کا خیال رکھیں، پہلے وہاں مسلمانوں پر الزام لگاتے رہے جس سے ایسا لگاکہ بھارت میں کورونا وائرس پھیلا ہی مسلمانوں کی وجہ سے ہے اور اب پاکستان پر الزام لگانے شروع کر دیے ہیں۔

وزیر اعظم کورونا وائرس کا ٹیسٹ کرانے پر رضامند

وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے کورونا وائرس ڈاکٹر فیصل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 25اپریل کے بارے میں تخمینہ لگایا تھا کہ 12 سے 15ہزار کے درمیان کیسز ہو سکتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ ہم اس کے قریب قریب پہنچ جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں ہماری صورتحال بہتر ہے لیکن اس صورتحال کو ہمیں برقرار رکھنا ہو گا جس کے لیے ضروری کے تمام تر احتیاط پر لازمی عمل کیا جائے۔

ڈاکٹر فیصل نے اعلان کیا کہ چند دن قبل وزیر اعظم کی ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جن کا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تو بطور ذمے دار وزیر اعظم اور ذمے دار شہری ہمیں خوشی ہے کہ آپ نے کورونا کا ٹیسٹ کرانے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر سارا ملک بیک وقت اکٹھا ہو کر وائرس کا مقابلہ کرے گا تو ہم اس پر بہتر طریقےسے قابو پا سکیں گے اور ہمیں امید ہے کہ شاید ہمارے اعدادوشمار وہاں نہ پہنچیں جن کا بہت سے دوسرے ملکوں کو سامنا ہے۔

 ثانیہ نشتر 

وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے سماجی تحفظ ثانیہ نشتر نے بتایا کہ اب تک احساس پروگرام کے ذریعے 13دنوں میں 50لاکھ خاندانوں کی مدد کی جا چکی ہے جبکہ 7ارب سے زائد کی رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت غریب و مستحق افراد میں نقد رقم کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مختلف کمپنیوں، مخیر حضرات وغیرہ کی مدد سے ان افراد تک راشن بھی پہنچایا جا سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ احساس راشن پورٹل ایک آن لائن پورٹل ہے جس پر ناصرف ادارے خود کو رجسٹر کرا سکتے ہیں بلکہ جن لوگوں کو راشن کی ضرورت ہے وہ بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے صنعت حماد اظہر

وفاقی وزیر برائے صنعت حماد اظہر نے بتایا کہ ہم اقتصادی رابطہ کمیٹی میں ایک بڑا پیکج لے کر جا رہے ہیں اور یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو بے روزگار ہوئے ہیں اور اب ان کا ذریعہ آمدن کوئی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پیکج سے لاکھوں لوگ مستفید ہو سکیں گے اور جیسے ہی اقتصادی رابطہ کمیٹی اس کی منظوری دیتی ہے تو میڈیا پر اس حوالے سے آگاہی مہم شروع کریں گے کہ آپ کیسے اس پروگرام سے منسلک ہو کر امداد حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ہم بجلی کے ایک پیکج پر بھی کام کر رہے ہیں کیونکہ پاکستان میں 90فیصد کاروبار چھوٹے اور درمیانے طبقے کے لیے ہیں اور ہم ان سب کاروباروں کو بجلی کے ذریعے فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو سکیں۔

حماد اظہر نے بتایا کہ ماہ اپریل کے اختتام سے قبل یہ پیکج لانچ کردیا جائے گا اور 90فیصد سے زائد چھوٹے اور درمیان طبقے کے افراد کے کمرشل میٹر والوں کو مدد ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک اور پیکج لانے کی تیاری بھی کررہے ہیں جس کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے درجے کاروباروں کو بینک سے مدد مل سکے گی کیونکہ عموماً ان افراد کے پاس زمین یا کوئی جائیداد نہ ہونے کے سبب بینک انہیں قرض دینے یا مدد کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے بتایا کہ ہم نے طورخم اور چمن بارڈر کو کھول دیا ہے اور مخصوص تعداد میں پاکستانی افغانستان سے واپس آنا شروع ہو گئے ہیں، ہفتے میں دو مرتبہ 500 پاکستانی طورخم اور تقریباً 300 چمن سے واپس آئیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ہندوستان کی سرحد بند ہے، وہاں سے کچھ پاکستانی واپس آنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور ہماری وزارت خارجہ ان سے مستقل رابطے میں ہے تاکہ بقیہ افراد کو بھی واپس لایا جا سکے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ بھی اجازت نہیں دے رہے۔

انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک جانے والوں کے لیے کوئی ممانعت نہیں ہے، پی آئی اے بھی مستقل پروازیں چلا رہا ہے جبکہ متعدد ملکوں نے جہاز بھیج کر اپنے شہریوں کو واپس لے کر گئے تھے۔

معید یوسف نے بتایا کہ اس ہفتے 6ہزار مسافر پاکستان آئیں گے اور اگلے ہفتے سے 7ہزار مسافر آئیں گے۔

اس موقع پر انہوں نے واضح کیا کہ چاہے کوئی کتنا ہی اثرورسوخ والا کیوں نہ ہو لیکن بیرون ملک سے آنے والے تمام افراد کو دو دن قرنطینہ میں رکھنے کی پالیسی کا یکساں اطلاق ہو گا اور اس میں کوئی چھوٹ نہیں دی جائے گی۔

Related Articles

Back to top button