پاکستانی خبریں

مشرف کیس میں خصوصی عدالت کے فیصلے پر اسلامی نظریاتی کونسل بھی میدان میں آگئی، بڑا فیصلہ کر لیا

ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے خصوصی عدالت کے فیصلے کا نوٹس لے لیا۔اسلامی نظریاتی کونسل کا ریسرچ ونگ فیصلے کا شرعی لحاظ سے جائزہ لے گا،جس میں دیکھا جائے گا کہ شرعی لحاظ سے لاش لٹکانے کا فیصلہ درست ہے یا نہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے خصوصی عدالت کے فیصلے کا نوٹس لے لیا، اسلامی نظریاتی کونسل کا ریسرچ ونگ فیصلے کا شرعی لحاظ سے جائزہ لے گا، جس میں دیکھا جائے گا کہ شرعی لحاظ سے لاش لٹکانے کا فیصلہ درست ہے یا نہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل نے خصوصی عدالت کے فیصلے میں سابق صدر پرویز مشرف کی لاش کو 3 روز تک ڈی چوک میں لٹکانے کے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ریسرچ ونگ نے فیصلہ حاصل کرلیا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا ریسرچ ونگ فیصلے کا شرعی لحاظ سے جائزہ لے گاکہ شرعی لحاظ سے لاش لٹکانے کا فیصلہ درست ہے یا نہیں۔ ؎

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی بابر اعوان نے کہا ہے کہ اداروں میں تصادم کے خدشے کو پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے کے پیرا 66 سے جوڑا جا رہا ہے، وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کوئی تصادم کا سوچے بھی نہیں۔

انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اداروں کے تصادم کی گفتگو ہورہی ہے کہ ادارے آپس میں لڑپڑیں گے۔

بابر اعوان نے کہا کہ اداروں کا تصادم پاکستان میں صرف ایک مرتبہ ہوا ہے، 1997 میں جب سجاد علی شاہ کی کورٹ پر حملہ کیا گیا تھا حملہ کرنے والوں میں سینیٹرز، ایم این ایز، ورکرز اور لیڈرز بھی تھے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ چلانے کے لیے اور ان کے آئینی و قانونی فریم ورک کے تحت عزت و احترام کے مطابق چلانے کے لیے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی موجودگی میں کوئی تصادم کا سوچے بھی نہیں۔

حکومت کا فیصلہ یہ ہے کہ ہم اس کے لیے آئینی اور قانونی راستہ اختیار کریں گے۔ معاون خصوصی نے کہا کہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) کے قانون 80 کی دہائی میں بنائے گئے تھے جنہیں 2010 میں تبدیل کیا گیا جس کے مطابق جو سزا یافتہ ہو اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بابر اعوان نے کہا کہ اس میں عمران خان یا تحریک انصاف کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تھا جب ہم نے نواز شریف کو یہ کہا تھا کہ بیماری کی وجہ سے ضمانتی بانڈ دے دیں۔

Related Articles

Back to top button