پاکستانی خبریں

بنگال کے لوگوں کے حوالے سے چیف جسٹس نے بڑا بیان دے دیا، سکوتِ ڈھاکہ کی بڑی وجہ بتا دی

چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ریاست شہریوں کے حقوق کو نذر انداز کرے تو لوگ سوشل کنٹریکٹ چھوڑ دیتے ہیں۔ بنگال کے لوگ ہم سے زیادہ محب وطن تھے لیکن بد قسمطی سے ریاست نے اپنے لوگوں کا خیال نہیں رکھا۔

پولیس کی جانب سے چیف جسٹس کو دی گئی الوداعی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آج کا دن دو واقعات سقوط ڈھاکہ اور اے پی ایس کی یاد دلاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں واقعات میں ہمارے لیے سبق موجود ہے۔ اگر ریاست شہریوں کو حقوق دینے سے انکار کر دے تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شہریوں کے حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔

تحریک آزادی ویسٹ بنگال سے شروع ہوئی اور وہ علاقہ اس لیے ہم سے جدا ہوا کیوں کہ ریاست نے ان کا خیال نہیں رکھا، اگر بنیادی حقوق کا نفاذ نہ ہو تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آرمی پبلک سکول سانحہ نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا، یہ وہ سانحہ ہے جس نے ملک بھر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس سانحہ کے بعد بالاخر پوری قوم نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہو گئی۔

آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو کریمینل جسٹس سسٹم بھی ہے، ہم نے کوشش کی ہے کچھ بہتری لانے کی، اور انصاف کے شعبے میں بہتری آ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس گلزار احمد بہتری کی شمع آگے لیکر چلیں گے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جب ضرورت پڑی میں دستیاب ہوں گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس اگر کام بہتر کرے توعدالتوں میں مقدمات دائر ہونا کم ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ نے ہر ضلعے میں ایک ایس پی کمپلینٹ مقرر کیا جس سے33 فیصد شکایات عدالتوں میں دائر ہونا کم ہوئے۔

محکمہ پولیس کی بہتری کیلیے بدقسمتی سے حکومتی سطح پر کوئی کام نہیں کیا گیا جب کہ بنیادی حقوق کے نفاذ میں پولیس کا بھی کردار ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پولیس کا غیر سیاسی رہنا بہت ضروری ہے اور اگر آپ غیر سیاسی رہنا چاہتے ہیں تو سفارش کو کبھی نا مانیں۔ اگر کوئی ناظم یا رکن اسمبلی آپ سے کسی کی سفارش کرتا ہے تو اس کیخلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کریں۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ ایسے لوگوں کی شکایت کریں دیکھیں جلد حالات بہتر ہوں گے، آپ کو سیاست سے پاک کوئی نہیں بنائے گا بلکہ آپ خود بنا سکتے ہیں، پولیس کو حکومت جو حکم دیں وہ مانیں۔

چیف جسٹس نے مشورہ دیا کہ پولیس اپنے فیصلے خود کرے اور اس محکمے کو اپنی آزادی کے لیے خود کوشش کرنا ہوگی۔ جب کوئی حقوق کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اسکو حقوق مل جاتے ہیں۔

پولیس نے فیصلہ کرنا ہے اس نے عملی طور پر خود کو آزاد کرنا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے تقریر کے اختتام پر دلچسپ مکالمے میں کہا کہ آج ایک تاریخ رقم کی گئی ہے کہ کسی چیف جسٹس کو پولیس کی جانب سے کبھی ریفرنس یا فیئر ویل نہیں دی گئی، یہ پہلی بار ہے کہ فیئر ویل دیا گیا ہے۔

Related Articles

Back to top button