پاکستانی خبریں

بی آر ٹی پشاور اور مالم جبہ ریفرنسز کے بارے میں نیب سربراہ نے کیا بڑا انکشاف کر دیا؟ حکومتی اراکین میں بے چینی بڑھ گئی

قومی احتساب بیورو (نیب) کے جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) پشاور اور مالم جبہ کے ریفرنسز تیار ہیں لیکن حکم امتناع کے باعث کارروائی نہیں کرسکتے۔

اسلام آباد میں بدعنوانی کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین نیب نے کہا کہ بدعنوانی ایک عالمگیر مسئلہ ہے، یہ صرف نیب کا کام نہیں کہ وہ بدعنوانی کا خاتمہ کرے بلکہ ہر پاکستانی کے فرائض میں شامل ہے۔

خیال رہے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت اور بی آر ٹی پر کام کرنے والے ادارے پشاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے اکتوبر 2017 میں اس کے آغاز کے بعد 6 ماہ یعنی 20 اپریل 2018 تک اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کیا تھا۔

تاہم ایسا نہ ہوسکا جس کے بعد منصوبے کے منتظمین بدل بدل کر اس کی تکمیل کی مختلف تواریخ 20 مئی سے 30 جون، 31 دسمبر سے 23 مارچ 2019 بتاتے رہے تھے۔

علاوہ ازیں مالم جبہ اراضی کیس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو مالم جبہ میں چیئرلفٹ اور ہوٹل قائم کرنے کے منصوبے کے لیے 275 ایکڑ اراضی کی لیز دینے میں مبینہ دھوکہ دہی پر تحقیقات کا سامنا ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ سسٹم کی بنیادیں اس لیے مضبوط نہیں ہوئیں کہ ہر طرف خود غرضی تھی، اپنے مفادات تھے، زر اور اقتدار کی ہوس تھی لہٰذا ملک میں ایسے ایسے تجربات کیے گئے کہ جب آدمی آنکھیں بند کرکے سوچتا ہے کہ ہماری فہم و فراست کہاں چلی گئی ہے اور ہم کن راستوں پر گامزن ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب حضرت ابوبکر صدیق نے خلافت سنبھالی تو پہلا کام جو مشاورت کے بعد عمل میں لایا گیا وہ یہ تھا کہ وہ اپنا ذاتی کاروبار نہیں کریں گے لیکن یہاں ذاتی کاروبار تب شروع کیا جاتا ہے جب مسند اقتدار پر ہوتے ہیں یا اقتدار کی راہداریوں میں ہوتے ہیں، اس سے پہلے جو بزنس نہیں ہوتا وہ چند سالوں میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ خوداحتسابی پہلا عمل ہے جس پر ہمیں عمل کرنا چاہیے۔

’قانون سازی میں پارلیمنٹ کو فعال کردار ادا کرنا ہے‘

چیئرمین اقبال نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے گی تو قانون کی حکمرانی کا تصور آئے گا، قانون کی حکمرانی یہ نہیں ہے کہ پہلے آپ نے اسٹیٹس دیکھا، پھر چہرہ دیکھا، مرتبہ، جاہ و جلال اور اثر و رسوخ دیکھا پھر سوچا کہ ہم ایکشن نہیں لیتے بلکہ دوسری طرف سے ہو کر گزرجاتے ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ قانون سازی میں پارلیمنٹ کو فعال کردار ادا کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2017 کے بعد سے کوئی اثر و رسوخ، کوئی جاہ و جلال،لالچ، دھمکی ایسی نہیں ہو جو راہ میں رکاوٹ نہ بنی ہو۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب نے اپنی منزل کا تعین کرلیا ہے اور وہ منزل ہے کہ ہم نے بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے، مجھے اس امر کا احساس ہے کہ 70،72 سال کا مرض ہے اسے شفایاب ہونے کے لیے ساری قوم کو نیب اور اپنے ملک کا ساتھ دینا ہوگا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ کرپشن کے خاتمے کی پہلی اینٹ ہم نے رکھ دی ہے لوگوں کو پتہ ہے کہ ہم نے کرپشن نہیں کرنی اور یہ بھی پتہ ہے کہ کرپشن نہیں کرنے دی جائے گی۔

’جنہوں نے بڑے چھکے مارے وہ ضمانتوں کیلئے کوشاں ہیں‘

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا ایسے لوگ بھی سامنے ہیں کہ کسی کی یہ جرات نہیں تھی کہ ان سے پوچھا جاتا کہ آپ نے کیا کیا ہے اس کا کریڈٹ نیب کو جاتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے بڑے چھکے مارے آج وہ جیل میں ہیں، ضمانتوں کے لیے کوشاں ہیں یا یہاں سے روانہ ہوچکے ہیں۔

’وزرا پیش گوئی سے گریز کریں‘
چیئرمین نیب نے کہا کہ حکومت کو صرف اتنا سا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے کبھی نیب میں یا اس کے معاملات میں کبھی دخل اندازی نہیں کی.

انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی وزرائے کرام کے بیان آتے رہتے ہیں لیکن جب تک وہ جذباتی بیان نہیں دیں گے ان کا ووٹ بینک کیسے محفوظ رہے گا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ وزرائے کرام سے گزارش کروں گا کہ وہ جتنے بھی قابل اور تجربہ کار ہیں لیکن وہ پیش گوئیوں سے گریز کریں مثلاً تواترسے پیش گوئی کی جاتی ہے کہ 2 ہفتے بعد فلاں شخص گرفتار ہوجائے گا اور وہ اتفاق سے گرفتار ہوجائے تو وہ بڑے زبردست دانش ور ثابت ہوئے جبکہ معروضی حالات اور زمینی حقائق آپ کے سامنے ہیں۔

’ہواؤں کا رخ بدل گیا ہے‘

انہوں نے کہا کہ ہمیشہ یہ کہا جاتا رہا کہ نیب کا رخ تو ایک طرف ہے پچھلی مرتبہ مجھے مجبوراً کہنا پڑا کہ ہواؤں کا رخ بدلنے لگا اور یہ آئندہ چند ہفتوں میں آپ محسوس کریں گے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ایک طرف 30 سے 35 سال کا دور دوسری طرف 12 سے 14 مہینے کا دور ہے تھوڑا فرق تو کرنا پڑے گا لیکن میں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان کو کوئی شخص، کوئی عہدیدار چاہے اربابِ اختیار سے ہو یا حزب اختلاف سے ہو نہ کسی سے دوستی نہ دشمنی ہے، بات معمولی سی ہے کہ جو کرے گا وہ بھرے گا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب پر الزام ہے کہ بی آر ٹی پشاور 17 ارب سے شروع ہوئی تھی 117 ارب تک پہنچ گئی ہے نیب ایکشن کیوں نہیں لیتا صرف اس لیے کوئی کارروائی نہیں کی جاسکی کیونکہ کچھ عدالتوں کے حکم امتناع ہیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ بی آر ٹی پشاور اور مالم جبہ ریفرنسز تیار ہیں حکم امتناع کی وجہ سے کارروائی نہیں کرپارہے اور جب وہ ختم ہوں گے تبھی ریفرنس دائر کرنے کی باری آئے گی۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا کہ کوئی مصلحت پسندی سامنے آئے اور نیب سوچے کہ اس طرف ارباب اختیار ہیں تو ذرا احتیاط سے کام لینا ہوگا، احتیاط صرف اس وقت کسی حد تک کی گئی جب محسوس ہوا کہ اس میں ملک کا مفاد موجود ہے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ نیب صرف پاکستان سے وابستہ ہے حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔

’نیب نے کیا کیا ہے‘؟
چیئرمین نیب نے کہا کہ کہا جاتا ہے نیب نے کیا کیا ہے؟ نیب جب سے وجود میں آیا ہے تب سے لے کر اب تک 3 سو 82 ارب کی ریکوری ہے جو سرکاری خزانے میں جمع ہوئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2017 کے بعد نیب میں تھوڑی تبدیلی ہوئی اور مداخلت کا خاتمہ ہوا جس کا خاتمہ کیا گیا تھا، 2017 سے اب تک ایک سو 53 ارب کی ریکوری ہوئی جس میں براہ راست اور بالواسطہ ریکوری ہوئی وہ بھی سرکاری خزانے میں جمع کروائی گئی۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ چند دن پہلے خوشخبری سنائی جارہی تھی کہ 49 ارب روپے پاکستان میں آئے ہیں تو اس کے پیچھے سب سے زیادہ کریڈٹ نیب کو جاتا ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ اس وقت ملک بھر کی عدالتوں میں بدعنوانی کے 1261 ریفرنسز زیر التوا ہیں، اس میں 9 سو 43 ارب ہے اور اس میں سے آدھا بھی عدالتوں کے توسط سے مل جائے تو پاکستان کی مالی حالت کہاں سے کہاں پہنچ جائے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس صرف 25 عدالتیں ہیں۔

Related Articles

Back to top button