پاکستانی خبریں

یکجہتی مارچ کرنے والے طلبہ کیا چاہتے ہیں؟

پاکستان کے درجنوں شہروں میں نماز جمعہ کے بعد نوجوانوں کے طلبا یکجہتی مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور سمیت کئی شہروں میں طالب علم اور نوجوان اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے سڑکوں پر نکل آئے۔

لاہور میں ناصر باغ سے شروع ہونے والے اس مارچ میں طلبا کی بڑی تعداد نے پنجاب اسمبلی کے باہر پہنچ کر ’انقلاب انقلاب‘ کے نعرے لگائے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ طلبا کا کہنا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے حصول اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف باہر نکلے ہیں۔

مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں ہلاک کیے گئے طالب علم مشال خان کے والد اقبال خان بھی لاہور میں طلبا کے اس احتجاج کا حصہ بنے۔ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں سیکڑوں طلبا نے پریس کلب سے ڈی چوک تک مارچ کرتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق کراچی میں طلبہ یکجہتی مارچ میں زیادہ تر سابق طلبہ یونین، انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکن اور مزدور رہنما شامل ہوئے جبکہ جامعات سے طلبہ کی شرکت محدود رہی۔پشاور میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے باہر مظاہرے میں مختلف طلبا تنظیموں کے علاوہ مزدور کسان پارٹی کے رہنماوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔

 مارچ کے منتظمین نے طلبہ کا مقصد اور مارچ کے آغاز کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ   پروگریسیو سٹوڈنٹ کلیکٹیو تنظیم کے بانیوں میں سے ایک حیدر کلیم نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تنظیم کا آغاز ستمبر 2016 میں ہوا جب چند طلبہ نے ایک ساتھ بیٹھ کر ایک سٹڈی سرکل یا مطالعہ کرنے کے لیے گروپ بنایا۔

انھوں نے بتایا ’اس گروپ میں شامل طلبا نے جب مختلف موضوعات پر کتابیں اور فلسفہ پڑھا تو ہم میں تنقیدی رحجان پیدا ہوا اور ہم نے سوال کرنا شروع کر دیا کہ ہم نے پڑھ لیا، ہم تنقید کرنا بھی جان گئے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مسئلہ کیا ہے تو اب ہم کیا کریں گے؟‘ 

’اس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی آواز دوسروں تک پہنچائیں گے۔ پھر ہم اس پیغام کو مختلف سرکاری تعلیمی اداروں میں لے کر گئے۔ ہم نے وہاں پر سٹڈی سرکل شروع کر دیے اور اس دو سے ڈھائی سال کے عرصے میں تقریباً پانچ سو چھوٹے بڑے احتجاج بھی کیے۔‘

وہ بتاتے ہیں ’جب ہم نے یہ دیکھا کہ احتجاج صرف ہم ہی نہیں بلکہ دوسری طلبہ تنظیمیں بھی کر رہی ہیں تو 2018 میں ہم نے سوچا کہ اس احتجاج کو ایک بڑی شکل دینی چاہیے تاکہ لوگوں کے جذبات اور مطالبات کی عکاسی اس احتجاج میں نظر آ سکے۔ اس طرح ہم تمام طلبہ مل کر نکلے اور ہم نے اپنے مطالبات کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔‘

’میں پروگریسو ہوں لیکن میرے والد جمعیت سے ہیں‘

حبہ اجمل، جو رائیونڈ کے قریب ایک گاؤں لانگو سے تعلق رکھتی ہیں، نے حال ہی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے انگلش لٹریچر کی تعلیم حاصل کی ہے اور وہ اب یہاں پڑھا رہی ہیں۔

وہ پروگریس سٹوڈنٹ کلیکٹیو کے وومن ونگ کی بانی ہیں لیکن ان کے والد اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہ چکے ہیں۔ محبہ کہتی ہیں ’یہ بہت ہی عجیب بات ہے کہ میں پروگریسو سے ہوں اور وہ جمعیت سے۔‘

’میں نے یونیورسٹی میں دیکھا کی صحیح اور غلط میں فرق کرنا کتنا ضروری ہے۔ تب میں نے سوچا کہ سیاست کے بغیر زندگی کے معاملات نہیں چل سکتے۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے خصوصاً میرے والد صاحب اور بھائی کی طرف سے کافی زیادہ مزاحمت کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود میری والدہ اور میری بہن میرا ساتھ دیتی ہیں۔‘

وہ سمجھتی ہیں ’سوشل ورک سے آپ لوگوں کی فلاح کے لئے کام تو کرتے ہیں لیکن سسٹم پر کبھی سوال نہیں اٹھاتے اور سیاست آپ کو سسٹم پر سوال اٹھانے کا موقع دیتی ہے۔‘

’ہمیں ایک ڈبے میں بند کر دیا گیا ہے‘

حیدر کلیم کا تعلق پروگریسو سٹوڈنٹ کلیکٹیو سے ہے اور وہ لاہور میں طلبہ یکجہتی مارچ کے منتظمین میں سے ہیں۔

گوجرانوالہ سے لاہور آکر انھوں نے یہاں نو سال گزارے ہیں۔ ادھر آنے کا مقصد معیاری تعلیم تھا جو ان کے مطابق ان کے آبائی شہر میں موجود نہیں۔

وہ کہتے ہیں ’پوری دنیا میں طلبہ کو معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ہم بہت پیچھے ہیں۔ بچپن سے ہی میں نے اپنے والد صاحب کو دیکھا اور مجھے یاد ہے ہے کہ ہمارے گھر میں فیض احمد فیض کی کتابیں اور تاریخ سے متعلق کتابیں تھیں۔ جب پہلی بار پڑھیں تو اس وقت تو سمجھ نہیں آئی لیکن اس سے ان معاملات میں میری دلچسپی بڑھنے لگی۔‘

حیدر کے مطابق پاکستان میں متاثر کن ریسرچ کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ ’ہمارے نوجوانوں کو پڑھائی کے مواقع نہیں دیے جاتے ہیں۔ بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر ہم تنقید نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں ایچ ای سی کی پالیسیاں اور تعلیمی اداروں کی ہدایات کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔‘

انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ’بس ایک ڈبے میں بند کر دیا گیا ہے اور ہمیں کوئی نئی چیز سیکھنے یا دیکھنے کو نہیں ملتی۔‘

طلبا تنظیم کی رکن محبہ احمد نے بی بی سی کو بتایا ’ہماری تنظیم سازی انتہائی احتیاط سے کی جاتی ہے۔ کوئی بھی شخص اگر ہماری تنظیم کا حصہ بننا چاہتا ہے تو ہم سب سے پہلے تعلیم پر زور دیتے ہیں اور پھر ہمارے سٹڈی سرکلز ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’ان سٹڈی سرکلز میں ہم سیاسی سوچ کو بڑھاوا دیتے ہیں تاکہ وہ تنقیدی سوچ رکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری تنطیم میں شامل ہونے کے لیے کسی بھی شخص کو کم از کم چھ سٹڈی سرکلز میں آنا ہوتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ انھوں نے 30 نومبر 2018 کو بھی یہ مارچ کیا تھا اور اسی کے تسلسل میں وہ اس برس بھی یہ مارچ کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’گذشتہ برس اس مارچ کا آغاز لاہور سے ہوا اور اسے ملک کے 11 شہروں میں کیا گیا جبکہ اس سال یہ مارچ ملک کے 50 سے زائد شہروں میں کیا جا رہا ہے۔‘

تم ذرا آج کی عورت کا سامنا تو کرو

منیبہ حفیظ کا تعلق سندھ سے ہے لیکن وہ اسلام آباد کی نمل یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔ انھوں نے جامشورو میں سندھ یونیورسٹی سے طلبہ تنظیموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ منیبہ نے ابتدائی طور پر انسانی حقوق کی کارکن کے طور پر کام کیا اور پھر پروگریسو سٹوڈنٹ فیڈریشن کی خاتون بانی رکن میں سے ایک بن گئیں۔

وہ کہتی ہیں ’پاکستان میں ہراسانی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ تعلیم مہنگی ہو گئی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں سوچ کو محدود کر دیا جاتا ہے اور پہلے سے مسلط شدہ صنفی رویوں کو فروغ دیا جاتا ہے۔‘

’ایسے میں طلبہ غیر منظم ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس تعلیمی نظام میں بہتری لائیں تاکہ طلبہ کو ایک اہم سٹیک ہولڈر کے طور پر دیکھا جا سکے۔‘

منیبہ حفیظ کے مطابق ہاسٹل میں رہائش بھی طلبہ کے اہم مسائل میں شامل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ دور دراز علاقوں سے آنے والی خواتین کے لیے اسلام آباد اور دیگر شہروں میں ہاسٹل کی سہولت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے انھیں سکیورٹی سمیت کئی پریشانیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔

طلبہ تنظیم میں ہونے کے ساتھ ساتھ منیبہ شاعری کا شوق بھی رکھتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں:

ابھی تک تمھارا سامنا کل کی عورت سے ہوا

تم ذرا آج کی عورت کا سامنا تو کرو

’زندگی خوف میں گزاری۔۔۔ پر اب نہیں‘

عمر خان کا تعلق کشمیر کے شہر باغ سے ہے۔ اسلام آباد میں وہ نسٹ کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتے ہیں اور ریولوشنری سٹوڈنٹ فرنٹ (آر ایس ایف) سے وابستہ ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہہ بچپن میں بورڈنگ سکول میں ہونے کی وجہ سے انھیں احساس ہوا کہ اگر وہ اپنے شہر میں ہوتے تو شاید وہ بہتر حالات میں زندگی گزار پاتے۔ ’میں نے اپنی زندگی خوف میں گزاری ہے۔‘

ان کے نزدیک ملک میں معاشی ناانصافی ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے لوگ اب متحرک ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نوجوان طبقہ ذہنی دباؤ کا شکار ہے کیونکہ ’ہمارے تعلیمی نظام میں طلبہ کو شامل ہی نہیں کیا جاتا۔‘

’یہاں آزادی رائے کی کوئی جگہ نہیں۔ تنقید کو بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ جس تعلیمی نظام کا مقصد صرف بڑی تعداد میں ایسے ملازم پیدا کرنا ہے جو آپ کی ہر بات سے متفق ہوں۔‘

عمر خان کہتے ہیں کہ اس میں بہتری صرف اسی صورت آ سکتی ہے کہ اگر طلبہ کو ان کے بنیادی اور جمہوری حقوق دیے جاتے ہیں۔

کیمپس میں آواز اٹھانے کی اجازت نہیں‘

ابدہ علی طلبہ یکجہتی مارچ کی سرگرم رکن ہیں۔ وہ ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ اور عوامی ورکرز پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ 35 سالوں سے یونین پر پابندی ہے جو کہ سیاست کی نرسری ہوتی ہے۔

’ریاست نے 18 سال کی عمر میں ووٹ کا حق تو دے دیا لیکن طالب علموں سے سیاست کا حق چھین لیا گیا ہے۔ جس کیمپس میں نوجوان کا بیشتر وقت گزرتا ہے وہاں ان کو اپنے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے کی اجازت بھی نہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ یونین کی بحالی طلبہ کا آئینی حق ہے اور آئین پر یقین رکھنے والے ہر فرد کو ان کی حمایت کرنی چاہیے۔

اس مارچ کا مقصد کیا ہے؟
حیدر کلیم نے بتایا کہ ’اس مارچ کا مقصد محض یہ ہے کہ جس طرح طالب علموں کو سیاست سے الگ کر کے انھیں تقسیم کیا گیا اور انھیں اپنی بات کہنے اور زندگی کے معاملات میں فیصلہ سازی کرنے کے لیے کوئی فورم مہیا نہیں کیا گیا ہم ایسے فورمز کی بحالی چاہتے ہیں اور یہ ہمارا بنیادی مطالبہ ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا پیغام بہت واضح ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی ادارے جو ہمارے گھر کی مانند ہیں ایک محفوظ جگہ ہوں۔ یہاں ہونے والی فیصلہ سازی مثلاً یونیورسٹی بجٹ، ہاسٹل کے مسائل، فیسوں میں اضافہ جیسے معاملات میں ہمیں بھی شامل کیا جائے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ان کے مطالبات میں تشدد کے واقعات میں کمی، بنا کسی مذہب، طبقے یا فرقے کی تفریق کے اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ ساتھ تمام تعلیمی اداروں میں معیاری تعلیم کا حصول شامل ہے۔

ان تمام باتوں کی تائید کرتے ہوئے محبہ احمد کا کہنا ہے کہ’معاشرے میں ہونے والے ظلم اور ناانصافیوں کو دیکھا تو میرے ضمیر نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ میں آواز نہ اٹھاؤں۔‘

وہ کہتی ہیں ’میں سوشل ورک کے بجائے سیاسی کام کو ترجیح اس لیے دیتی ہوں کیونکہ میرے خیال میں آپ طاقت کے ساتھ ہی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ سوشل ورک میں آپ لوگوں کی فلاح کے کام تو کرتے ہیں لیکن سسٹم پر کبھی سوال نہیں اٹھاتے اور سیاست آپ کو سسٹم پر سوال اٹھانے کا موقع دیتی ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’آج اس تحریک کے چلنے کا سبب گذشتہ برس کے دوران تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کے بعد فیسوں میں اضافہ، سکالرشپس کا خاتمہ اور ہراسانی کے واقعات میں اضافے کے باعث طلبہ میں پھیلنے والی مایوسی ہے۔‘

موحبہ کہتی ہیں ’ان مسائل کا سامنا پہلے بھی طلبا کو تھا مگر گذشتہ ایک برس کے دوران ان مسائل نے بدترین شکل اختیار کرلی ہے اس لیے ہم اپنی آواز اٹھا رہے ہیں۔‘

تنظیم کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟
حیدر کلیم نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر فیک اکاؤنٹس کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم کسی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے اور وہ یہ کہ ’ہم پاکستان کے آئین کی بات کر رہے ہیں اور اگر کسی کو شک ہے کہ ہمیں کہیں سے فنڈنگ مل رہی ہے تو وہ ضرور عدالت اور اداروں کے پاس جائیں تا کہ سب کو معلوم ہو سکے کہ ہمیں کہاں سے فنڈز مل رہے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ہماری تنظیم کے طلبا مل کر آپس میں پیسے جمع کرتے ہیں اور باقی ہم کراوڈ فنڈنگ یعنی عام لوگوں سے مانگتے ہیں۔ اس لیے یہ تمام الزامات غلط ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تو بہت سے لوگوں کا ادھار دینا ہے۔‘

تاہم دوسری جانب محبہ کہتی ہیں ’اگر ہماری تنظیم پر کسی کے ایجنڈے کے تحت کام کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے تو اس میں حقیقت ہے کیونکہ ایجنڈا تو ہمارا ہے اور وہ طلبا کے مسائل کا خلاف آواز اٹھانا ہے۔ ہمارے طلبا سیاسی سوچ رکھتے ہیں۔ ہم سیاست کا حق چاہتے ہیں، ہم ریاست کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بنیادی حقوق پورے کریں۔ ہمارے ایجنڈے میں یہ سب کچھ شامل ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’جب بھی ہمارے ملک میں حقوق کے لیے آواز اٹھائی جاتی ہے تو ایسے ہی الزامات لگائے جاتے ہیں جبکہ اس تحریک کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کو صحیح طریقے سے عمل میں لایا جائے۔‘

وہ بتاتی ہیں ’ہماری پالیسی اور منشور کے مطابق ہم کراؤڈ فنڈنگ کرتے ہیں۔ ہم کسی این جی او یا کسی سیاسی پارٹی یا ادارے سے فنڈ نہیں لیتے۔‘

’نوجوانوں کی جدوجہد مشترکہ ہونی چاہیے‘

ثاقب خورشید پاکستان کی پہلی پروگریسیو طلبہ تنظیم ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن کے چیئرمین اور قائد اعظم یونیورسٹی میں ایم فل کے طالب علم ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’ہر وہ شحص جو طالب علم ہے اور ہر وہ نوجوان جو معاشی مجبوریوں کی وجہ سے طالب علم نہیں بن پایا، سب کے مسائل مشترکہ ہیں۔ جب مسائل مشترکہ ہیں تو ان کی بحالی اور ان کے حل کے لیے جدوجہد بھی مشترکہ ہونی چاہیے۔‘

ثاقب کی تنظیم کراچی سمیت سات شہروں میں شریک ہو رہی ہے۔

سیاست میں طلبہ کے راستے بند ہیں‘

سرمن بروہی یوتھ ایکشن کمیٹی کے وائس چیئرمین ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے ایم کام کیا ہے اور ان کی تنظیم کراچی سمیت سندھ کے بڑے شہروں میں اس مارچ میں شرکت کررہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ طلبہ یونین کی بحالی کو نوجوانوں کا بنیادی مطالبہ سمجھتے ہیں۔ ’یونین کی بحالی کے بعد یونین سازی کے انتخابات ہوں گے اور صدر اور جنرل سیکریٹری منتخب ہوں گے۔ پالیسی سازی میں ان کی رائے شامل ہوگی۔‘

سرمن کہتے ہیں ’اس ملک کی جو روایتی سیاست ہے اس میں تبدیلی بھی طلبہ یونین کی بدولت ہی ممکن ہے۔ اسی کے ذریعے سویلین بالادستی آسکتی ہے۔ پہلے جو طلبہ یونین کے رہنما تھے وہ قومی سیاست میں اب بھی موجود ہیں۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ ’اس وقت مارننگ شو، سپورٹس اور شوبز سے تعلق رکھنے والی شخصیات تو پارلیمان تک آجاتی ہیں۔ تاہم طلبہ کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔

اس مارچ کا مستقبل کیا ہے؟
حیدر کلیم کے مطابق اس طلبا تحریک سے وہ اپنے مستقبل کے ساتھ ساتھ آنے والی نسلوں کے مستقبل کی بہتری کی بھی بات کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا ’یہ طلبا مارچ گذشتہ برس بھی ہوا تھا، اس کا مقصد صرف ہمارے مطالبات کو طاقت کے ایوانوں تک پہنچانا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس ایک مارچ سے ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے اس لیے ہم تیار ہیں اور ہم پوری تحریک چلائیں گے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’ہمارے مطالبات میں آئین پاکستان کے تحت ملنے والی آزادی اور حقوق شامل ہیں جن میں بنیادی اور معیاری تعلیم، طلبا یونین کے قیام کی آزادی اور آزادی اظہار رائے شامل ہیں اور اگر کسی کو ہمارے مطالبات سے مسئلہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو پاکستان کے آئین سے مسئلہ ہے۔‘

Related Articles

Back to top button