پاکستانی خبریں

کراچی میں سات سال قبل قیامت صغریٰ، بھتہ نہ دینے پر زندہ انسانوں کو بلدیہ فیکٹری سمیت جلا دیا گیا

سانحہ بلدیہ فیکٹری کو سات سال بیت گئے، کراچی میں بھتہ نہ دینے پر دو سو انسٹھ زندہ انسانوں کو فیکٹری سمیت جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا لیکن آنسو بہاتی ماں کو انصاف ملا اور نہ باپ کا ہاتھ قاتلوں کے گریبان تک پہنچ سکا۔

آج سے سات سال قبل آج ہی کی تاریخ میں حیوانیت کا ایسا اندوہناک کھیل کھیلا گیا جسے دیکھ کرانسانیت بھی دہل کرگئی، گیارہ سمتبر دوہزار بارہ کی صبح کراچی بلدیہ میں واقع گارمنٹس فیکٹری کے محنت کش یہ نہیں جانتے تھے کہ آج وہ خود نہیں بلکہ اُن کا لاشہ گھر واپس جائے گا۔ جلنے کی ناقابل برداشت بُو پر کوئی انہیں پہچان بھی نہ پائے گا۔ بندہ خاکی راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔

درندہ صفت بھتہ مافیا نے آنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے فیکٹری آنے والے دو سو انسٹھ انسانوں کو زندہ جلا ڈالا، سانحہ کی تحقیقات میں یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ فیکٹری میں آگ لگی نہیں بلکہ فیکٹری مالکان کی جانب سے بھتہ نہ دینے کے باعث آگ لگائی گئی تھی اور اس کیلئے مخصوص کیمیکلز استعمال کیا گیا جس سے آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے فیکٹری کو زندہ انسانوں سمیت راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔

تفتیش کا دائرہ آگے بڑھا تو ایک سیاسی جماعت سے وابستہ بڑے بڑے نام سامنے آئے، گرفتاریاں ہوئیں، جے آئی ٹی بنی لیکن لخت جگر کی جدائی پر آنسو بہاتی ماں کو انصاف ملا اور نہ ہی بڑھاپے کا سہارا چھن جانے پر باپ کا ہاتھ قاتلوں کے گریبان تک پہنچا۔

بیواؤں اور یتیموں کی چیخیں آج بھی فلک کو چیرتی ہیں اور ادھر کیس کی فائلوں پر پڑنے والی گرد کی تہہ مزید موٹی ہوتی جارہی ہے۔ کیا ہمارا سسٹم مظلوموں کو انصاف دے پائے گا؟ یا اس سانحے کا فیصلہ بھی دیگر اہم واقعات کی طرح آخری عدالت ہی کرے گی؟۔

Related Articles

Back to top button