بین الاقوامی

جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کا نظریہ کیا ہے؟

عالمی جوہری اخلاقیات اور ڈیٹرنس تھیوری میں NFU) No first use) سے مراد ایک قسم کا عہد یا پالیسی ہے جس میں ایک جوہری طاقت رسمی طور پر جنگ میں جوہری ہتھیاروں یا بڑے پیمانے پر تباہی کے دوسرے ہتھیاروں (WMD) کے استعمال سے باز رہتی ہے۔

جوہری ہتھیار رکھنے والی زیادہ تر ریاستیں ایسی پالیسیاں برقرار رکھتی ہیں جو تنازعہ میں ان کے پہلے استعمال کی اجازت دیتی ہیں۔ ان ہتھیاروں کو صرف جوہری حملے کے بدلے میں استعمال کرنے کے وعدے — یا پہلے استعمال نہ کرنے کی پالیسی — نایاب ہیں۔ جہاں یہ وعدے جوہری ریاستوں کی طرف سے کیے گئے ہیں، وہاں ان کے مخالف عموماً انھیں قابل اعتبار نہیں سمجھتے ہیں۔

جوہری ہتھیار استعمال نہ کرنے کا وعدہ کرنے والے ممالک

چین

چین پہلی جوہری ہتھیاررکھنے والی ریاست ہے جس نے NFU کی پالیسی کو قبول کیا، جب اس نے پہلی بار 1964 میں جوہری صلاحیتیں حاصل کیں اور 2018 تک وہ واحد ریاست بن گئی جس نے "غیر مشروط طور پر NFU عہد کو برقرار رکھا۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے "کسی بھی وقت یا کسی بھی حالت میں جوہری ہتھیار نہ استعمال کرنے والے اور جوہری ہتھیاروں کو کسی بھی غیر جوہری ہتھیاروں سے پاک ریاستوں کے خلاف استعمال کرنے کی دھمکی نہ دینے کا عہد کیا ہے، کسی بھی وقت یا کسی بھی حالات میں۔ سرد جنگ کے دوران، چین نے امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ بین الاقوامی جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے جوہری ہتھیاروں کا حجم چھوٹا رکھنے کا فیصلہ کیا۔

چین نے حالیہ برسوں میں بارہا NFU پالیسی کی توثیق کی ہے، 2023 میں اقوام متحدہ کی سلامتیکونسل کے اجلاس کے دوران اپنے بیان میں، چین نے جوہری ہتھیاروں کی تنصیبات اور پاور پلانٹس کے خلاف کسی بھی حملے کو مسترد کرتے ہوئے، عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے لیے جوہری ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کے اپنے موقف اور حمایت کا اعادہ کیا۔

بھارت

بھارت نے پہلی بار 1998 میں اپنے دوسرے جوہری تجربات، پوکھران-II کے بعد NFU کی پالیسی اپنائی۔ اگست 1999 میں، بھارتی حکومت نے اس نظریے کا مسودہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ جوہری ہتھیار صرف اور صرف ڈیٹرنس کے لیے ہیں۔ بھارت ’’صرف جوابی کارروائی‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہے گا۔ دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت "پہلا جوہری حملہ شروع کرنے والا ملک نہیں ہوگا، لیکن اگر ڈیٹرنس ناکام ہو جائے تو وہ جوابی کارروائی کرے گا” اور یہ کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت دینے کے فیصلے وزیر اعظم یا منتخب حکومت کے ذریعے کیے جائیں گے۔

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 16 اگست 2019 کو سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی برسی کے موقع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کی NFU پالیسی "حالات” کے لحاظ سے تبدیل ہو سکتی ہے۔ واجپائی کی حکومت نے 1998 میں پوکھران-II جوہری تجربات کیے تھے.

NFU پالیسی کے خلاف ممالک

پاکستان، روس، برطانیہ، امریکہ، اور فرانس کا کہنا ہے کہ وہ جوہری یا غیر جوہری ریاستوں کے خلاف جوہری ہتھیاروں کا استعمال صرف اس صورت میں کریں گے جب ان کی سرزمین پر، انکے خلاف یا ان کے اتحادیوں پر حملہ کیا جائے گا۔

سوویت یونین/روس

اپنے آخری سالوں میں، سوویت یونین نے 1982 میں اس وقت رسمی طور پرNFU کی پالیسی اپنائی جب وزیر خارجہ آندرے گرومائکو نے اقوام متحدہ میں جنرل سکریٹری لیونیڈ بریزنیف کی طرف سے پیشگی ایٹمی حملہ نہ کرنے کا عہد پڑھ کر سنایا۔ تاہم اس عہد کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اور بعد میں لیک ہونے والی سوویت مسلح افواج کی دستاویزات نے اس بات کی تصدیق کی کہ فوج کے پاس پہلے سے جوہری حملے کا منصوبہ تھا اور اس نے ایبل آرچر 83 کے بحران کے دوران اسے شروع کرنے پر غور بھی کیا تھا۔

سوویت یونین کی تحلیل کے بعد، روسی فیڈریشن نے 1993 میں اس پالیسی کو باضابطہ طور پر تبدیل کر دیا کیونکہ سوویت یونین کے بعد کے دور میں روسی مسلح افواج کمزوری تھی۔ روس اپنے پورے فوجی نظریے کو دفاعی فوجی نظریے سے تعبیر کرتا ہے۔ خاص طور پر جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے، وہ مندرجہ ذیل مواقعوں پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حق محفوظ رکھتا ہے:

1۔ اس کے یا اس کے اتحادیوں کے خلاف جوہری اور دوسرے قسم کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں۔

2۔ جب روایتی ہتھیاروں کے استعمال سےریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہو.

برطانیہ اور شمالی کوریا

مارچ 2002 میں، برطانوی سکریٹری آف اسٹیٹ برائے دفاع جیوف ہون نے کہا کہ برطانیہ "بدمعاش ریاستوں” کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہے اگر وہ کبھی بھی برطانوی مسلح افواج کے دستوں کے خلاف "بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار” استعمال کرتے ہیں۔

اپریل 2017 میں وزیر دفاع مائیکل فالن نے اس بات کی تصدیق کی کہ برطانیہ "انتہائی حالات” میں میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرے گا۔

شمالی کوریا کی بیان کردہ پالیسی پوزیشن یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں کا "کبھی بھی غلط استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اسے پیشگی حملے کے تناظر میں استعمال کیا جائے گا”، لیکن اگر "ہمارے خلاف فوجی طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے تو شمالی کوریا اپنی "سب سے طاقتور جارحانہ طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔

اسرائیل

اگرچہ اسرائیل سرکاری طور پر جوہری ہتھیاروں کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔

اسرائیلی مؤرخ Avner Cohen کے مطابق، اسرائیل کی جوہری ہتھیاروں کے بارے میں پالیسی، جو 1966 میں مرتب کی گئی تھی، چار "سرخ لکیروں” کے گرد گھومتی ہے جو اسرائیلی ایٹمی ردعمل کا باعث بن سکتی ہے:

1۔ اسرائیل کی سرحدوں کے اندر آبادی والے علاقوں میں فوجی کاروائی۔
2۔ اسرائیلی فضائیہ کی تباہی۔
3۔ اسرائیلی شہروں کوفضائی بمباری، کیمیائی حملوں، یا حیاتیاتی حملوں کا نشانہ بنانے کی صورت میں۔
4۔ اسرائیل کے خلاف جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں۔

امریکا

امریکا اور نیٹو نے نہ صرف NFU کی پالیسی اپنانے سے انکار کیا بلکہ 1967 تک انہوں نے "بڑے پیمانے پر انتقامی کارروائی” کے جوہری نظریے کو برقرار رکھا جس میں جوہری ہتھیار واضح طور پر شمالی امریکا یا مغربی یورپ کے روایتی حملے کے خلاف دفاع کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔

اگرچہ اس حکمت عملی پر نظر ثانی کی گئی تھی، تاہم جسکے بعد بھی پہلے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھا گیا۔2020 کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکی جوہری ہتھیاروں کا یکطرفہ طور پر استعمال نہیں کرے گا.

پاکستان

پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد نے خبردار کیا کہ اگر پاکستان پر کبھی حملہ کیا گیا تو وہ اپنے دفاع کے لیے "اپنے جوہری ہتھیاروں میں موجود کوئی بھی ہتھیار” استعمال کرے گا۔

پاکستان NFU کی پالیسی کو اپنانے سے انکار کرتا ہے اور اشارہ کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کو لانچ کرے گا چاہے دوسری ریاست پہلے ایسے ہتھیار استعمال نہ کرے۔ پاکستان کی غیر متناسب جوہری قوت کا بھارت کی جوابی کارروائی کی صلاحیت پر خاصا اثر ہے۔ ایک فوجی ترجمان نے کہا کہ "پاکستان کے جوہری ہتھیارکے پہلے استعمال کی دھمکی نے ہندوستان کو روایتی فوجی حملوں پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

پاکستان کے قومی سلامتی کے سابق مشیر سرتاج عزیز نے پہلے جوہری استعمال کی پالیسی کا دفاع کیا۔ سرتاج عزیزنے وضاحت کی کہ 2001 میں ہندوستانی پارلیمنٹ پر حملے کے بعد پاکستان کی NFU پالیسی کارگر ثابت ہوئی اور دلیل دی کہ اگر پاکستان کی NFU پالیسی کو قبول کرتا تو دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوتی۔

Related Articles

Back to top button