بین الاقوامی

اردن کے ولی عہد حسین بن عبداللہ اور سعودی خاتون رجوہ آل سيف شادی کے بندھن میں بندھ گئے

اردن کے ولی عہد شہزادہ ال حسین بن عبداللہ اور سعودی خاتون رجوہ آل سيف شادی کے بندھن میں بندھ گئے ہیں۔

العریبیہ نیوز کی رپورٹ کے مطابق شاہی جوڑے کے نکاح کی تقریب دارالحکومت عَمان کے ظہران پیلس میں منعقدہ ہوئی جہاں دوستوں، اہل خانہ سمیت دنیا کے نامور شخصیات نے شرکت کی۔

نامور شخصیات میں امریکی خاتون اول جِل بائیڈن، برطانیہ کے شہزادہ ولیم اور ان کی اہلیہ کیٹ مڈلٹن اور قطر کے امیر کی والدہ شیخہ موزہ بنت ناصر بھی شامل تھیں۔

اس کے علاوہ بیلجیئم، اسپین، ڈنمارک، ہالینڈ اور جاپان کے شاہی خاندانوں کے افراد نے بھی شرکت کی تھی۔

نکاح کی تقریب مقامی وقت کے مطابق صبح 9 بجے شروع ہوئی، جہاں اردن کے بادشاہ اور ملکہ نے ظہران محل میں مہمانوں کا استقبال کیا۔ اردن کی مسلح افواج نے روایتی دھن کے ساتھ مہمانوں خوش آمدید کیا۔

اس کے بعد شاہی جوڑے اور ان کے والد نے ایک شادی کے معاہدے پر دستخط کیے جسے ’کتاب الکتاب‘ کہا جاتا ہے اور پھر 28 سالہ اردن کے ولی عہد اور سعودی خاتون نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی۔

نکاح کی تقریب میں دلہے نے ملٹری یونیفارم جبکہ دلہن نے لبنان کی ڈیزائنر کا سفید رنگ کا فُل آستین والا گاؤن پہنا تھا ۔

نکاح کے بعد شاہی جوڑا خصوصی سرخ لینڈ روورز اور موٹر سائیکلوں کے جھرمٹ میں دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ سے الحسینیہ محل کے لیے روانہ ہوا۔

اسی دوران ہزاروں لوگوں نے اردن کے ولی عہد اور ان کی اہلیہ کا استقبال کیا، دونوں نے اپنی گاڑی سے ہاتھ ہلاکر لوگوں کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا۔

شادی کی تقریب کو براہ راست دیکھنے کے لیے ملک بھر میں بڑی اسکرین نصب کی گئیں جہاں لوگ سیکڑوں کی تعداد میں جمع تھے، کئی لوگوں کے ہاتھوں میں جھنڈے تھامے ہوئے تھے اور سفید اور سرخ رنگ کے اسکارف پہنے ہوئے تھے۔

اردن میں گزشتہ روز عام تعطیل تھی تاکہ شادی کی تقریب کے بعد لوگوں کا ہجوم سرخ لینڈ روور جیپوں پرنوبیاہتا جوڑے کو دیکھ سکے اور شاہی خاندان کی خوشیوں میں شریک ہوسکے۔

اردن کے ولی عہد ال حسین بن عبداللہ دوم اور رجوہ آل سیف کی شاہی شادی کے موقع پر ملک میں آنے والے زائرین کے پاسپورٹ پر خصوصی مہرلگائی گئی۔

پاسپورٹ پرلگائی جانے والی اس مہر میں لکھا تھا ’اردن کی شاہی شادی‘۔ طویل عرصے سے منتظر اردن کی شاہی شادی نے علاقائی اور عالمی توجہ حاصل کی ہے۔

Related Articles

Back to top button