بین الاقوامی

بھارت میں زرعی اصلاحات کے خلاف کسانوں کا شدید احتجاج، ریلوے ٹریکس اور ہائی ویز بند

بھارت میں حال ہی میں ہونے والی زرعی اصلاحات کے خلاف کسانوں کا احتجاج 10 روز بعد شدت اختیار کرگیا ہے اور کسانوں نے ملک بھر میں ریلوے ٹریکس اور ہائے ویز بند کرتے ہوئے اس معاملے پر کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق کسان وید سنگھ نے ہڑتال سے قبل اپنے ساتھیوں کے خدشات کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ بڑی بڑی کارپوریشنز قیمتیں کم کردیں گی اور ان کا روزگار تباہ ہوجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ‘ ہم پریشان ہیں، انتہائی پریشان ہیں، ہمارے بچے بھوک سے مر جائیں گے، اس سے بڑی پریشانی اور کیا ہوسکتی ہے’۔

دوسری جانب حکام نے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچاؤ کے پیشِ نظر دہلی میں پولیس کی نفری جبکہ بھارت بھر کے دیگر حصوں میں سیکیورٹی میں اضافہ کردیا ہے۔

 

آج ہونے والے احتجاج میں ریلوے ورکرز، ٹرک ڈرائیورز، اساتذہ اور دیگر یونینز کی جانب سے کسانوں کی حمایت کی گئی ہے۔

بھارت کی کئی مشرقی اور مغربی ریاستوں میں مظاہرین نے ریلوے ٹریکس اور سڑکیں بند کردی ہیں جبکہ ٹرینوں کی آمدورفت بھی معطل کردی گئی ہے۔

بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سینئر رہنما نے کہا کہ ‘ ہم کسانوں کے کاز کی حمایت کرنا چاہتے ہیں۔

اس ناکہ بندی اور ہڑتال نے ایک سیاسی رخ اختیار کرلیا ہے اور بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی جانب سے اپوزینشن پر موقع پرستی کا الزام لگایا جارہا یے کہ وہ انہوں نے وہ اقدامات مسترد کیے ہیں جو اقتدار میں رہتے ہوئے خود لانا چاہتے تھے۔

عام آدمی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال نے کہا کہ دہلی پولیس نے انہیں گزشتہ روز سے نظربند کیا ہوا ہے۔

خیال رہے کہ دہلی پولیس بھارت کی قومی حکومت کے ماتحت آتی ہے اور اروند کجریوال کے مطابق انہیں کسانوں کے احتجاجی کیمپ کے دورے کے بعد نظربند کیا گیا تاہم پولیس نے اس دعوے کو مسترد کردیا۔

علاوہ ازیں ٹوئٹر پر پوسٹ کی گئی فوٹیج میں مغربی گجرات میں ہڑتال میں حصہ لینے کی کوشش کرنے والے اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما کو اسکوٹر پر جاتے اور پولیس کی گاڑی کو ان کا پیچھا کرتے دیکھا گیا ہے۔

بے نتیجہ مذاکرات

مذاکرات کے 5 دور کسانوں اور وزرا کے مابین اختلافات کو کم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔

متعارف کروائے گئے قوانین کے تحت کسانوں کو اپنی فصل کم سے کم قیمت کی ضمانت دینے والی سرکاری تنظیموں کے بجائے اوپن مارکٹ بشمول سپرمارکیٹ چینز میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ ان صنعت کو بڑی کمپنیاں قبضے میں لے لیں گی جو قیمتوں کو کم کرنے پر مجبور کریں گی۔

سونی پت زرعی مارکیٹ تاجروں کی ایسوسی ایشن کے صدر پاون گوئل نے اے ایف پی کو بتایا کہ حکومت کچھ کمپنیوں خواہ وہ بھارتی ہوں ہو یا غیر ملکی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کسانوں کو گمراہ کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ قانون مستقبل میں جاری رہتا ہے تو کسان، مزدوروں تک محدود ہوجائیں گے اور صرف بڑی کمپنیوں کے ورکرز بن جائیں گے۔

تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ یہ تبدیلیاں زراعت کے لیے ضروری ہیں جو اب تک بھارت کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس حوالے سے کسانوں اور وزرا کے درمیان نئے مذاکرات کل بروز بدھ ہوں گے۔

خیال رہے کہ حالیہ برسوں میں خشک سالی اور قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کی وجہ سے ہزاروں کسان خودکشی کرچکے ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی نے اسے ‘زراعت کے شعبے میں مکمل تبدیلی’ قرار دیتے ہوئے سراہا تھا جو کہ ‘لاکھوں کسانوں’ کو بااختیار بنانے کے لیے ضروری سرمایہ کاری اور جدت پسندی کی حوصلہ افزائی کرے گا۔

تاہم پنجاب میں حکومت کرنے والی اور اپوزیشن کی اہم جماعت کانگریس نے اس احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے بحث کی تھی کہ اس تبدیلی نے کسانوں کو بڑی کارپوریشن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔

Related Articles

Back to top button