بین الاقوامی

ترک حکومت نے 86سال بعد آیاءصوفیہ کومسجد کی حیثیت سے بحال کردیا

ترک حکومت نے 86سال بعد آیاءصوفیہ کو مسجد کی حیثیت سے بحال کر دیا ہے یہ تاریخی عمارت بازنطینی حکمرانوں نے ڈیڑھ ہزار سال قبل استنبول میں تعمیر کی تھی، جو آج بھی یورپ کا حصہ شمار ہوتا ہے۔

شاید دنیا کی واحد تاریخی عمارت ہے جس کی حیثیت مسلسل تبدیل ہوتی رہی مگر مقام و مرتبہ ہر دور میں برقرار رہا، اس عمارت کا اصل نام ”ہاگیا صوفیہ“ہے یونانی زبان کے ان الفاظ کا مطلب ہے ”مقصد سوچ“یہی وجہ ہے کہ اس عمارت کا نام کسی نے تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی یہ عمارت 532 ءعیسوی میں تعمیرکی گئی، آیا صوفیہ رومی سلطنت کا سب سے بڑا چرچ تھا۔

دلچسپ بات یہ کہ عیسائی فرقوں میں بھی اس عمارت کے حوالے سے اختلافات رہے، کیتھڈرل اور کیتھولک اسے اپنا اپنا مذہبی مرکز بنانے کیلئے کوشاں رہے،آرتھوڈوکس فرقہ کی بعض نشانیاں بھی یہاں پائی جاتی ہیں، اپنی تعمیر کے بعد 1204ءتک یہ بازنطینی رومن کیتھولک کے زیر تسلط رہا مگر 1204ءسے1261ءتک اس پر رومن کیتھولک کا تسلط رہا،1453ءمیں جب مسلمانوں کا استنبول پر قبضہ ہواءتو اسے مسجد کی شکل دے دی گئی، یہ واحد عمارت ہے جو چھ بار مسجد اور پھر چرچ میں تبدیل ہوئی،ایک موقع پر تو مسلمانوں اور مسیحیوں کے اتفاق رائے کے بعد آیا صوفیہ مسجد اور چرچ دونوں کی حیثیت اختیار کر گیا، دونوں مذاہب کے پیروکار یہاں اپنے اپنے طریقے سے عبادت کیا کرتے تھے۔

روزنامہ پاکستان میں محسن گورایہ نے اپنے کالم میں لکھا کہ1935ءمیں کمال اتاترک نے جب ترکی کو سیکولر ملک بنایا مسجد بند کر دی گئی، باجماعت نماز اور اذان پر پابندی عائد کر دی گئی تو آیا صوفیہ کو میوزم کا درجہ دیدیا گیا، تب سے اس عمارت میں اذان دی گئی نہ نماز ادا کی گئی۔ موجودہ ترک صدر طیب اردوان نے گزشتہ دنوں اس عمارت کو مسجد کی حیثیت سے بحال کرنے کا اعلان کیا، اور 24جولائی کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے باقاعدہ اس کا افتتاح کیا گیا۔

طیب اردوان نے خود بھی نماز ادا کی، اس مقدس تقریب کوترکی میں ماہ اپریل میں منائے جانے والے تہوار ٹیولپ نے مزید دلفریب بنا دیا،ہر طرف رنگ برنگے ٹیولپ کے پھولوں کی بہار میں اللہ اکبر کی صدا نے سماں باندھ دیا۔ آیا صوفیہ ترکی میں غیر ملکی سیاحوں کا بھی خاص مرکز تھا،یہ ممکن نہیں کہ کوئی سیاح ترکی آئے اور آیا صوفیہ کی سیر نہ کرے،ایک اندازے کے مطابق سالانہ 39لاکھ سیاح اس کا دورہ کرتے جو ترکی کی آمدن کا بھی ایک بڑا ذریعہ تھا۔

عیسائیوں نے جب اس شہر کو فتح کیا تو اس تاریخی شہر کا نام بدل ڈالا اور یہ عمارت تعمیر کرائی ابتداءمیں اسے لکڑی سے بنایا گیا مگر کسی وجہ سے اس عمارت کو آگ لگ گئی جس کے بعد537 ءمیں اس کی پختہ تعمیر کی گئی،اس کی تعمیر کے بعد جسٹینین نے دعویٰ کیا کہ میں نے آج سلیمان کو مات دیدی، انہوں نے ہیکل سلیمانی بنایا اور میں نے یہ چرچ تعمیر کیا، اس نے اس عمارت کی تعمیر پر اعلانیہ فخر کیا۔

27دسمبر537ءمیں یہاں پہلی عبادت ہوئی،یہ اپنے دور میں تعمیر ہونے والی انتہائی عالیشان عمارت تھی، اس کی بلند اور بیضوی چھتیں آج بھی مسحور کن ہیں، تعمیر میں شش پہلو پتھروں کا استعمال کیا گیا، آنکھوں کو خیرہ اور ذہن کو حیرت زدہ کرنے والی یہ عمارت متعدد حوالوں سے محیر العقول ہے۔

آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے پر دنیا میں ایک شور برپا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنا درست نہیں مگر معترضین بھول رہے ہیں ترک حکومت نے کسی چرچ کو نہیں ایک میوزیم کو مسجد کا درجہ دیا ہے جو پہلے بھی مسجد ہی تھی، لہٰذا اعتراض کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا، استنبول کا پرانا نام قسطنطنیہ تھا جو قسطنطین بادشاہ نے فتح کے بعد اسے دیااس تارخی شہر کے حوالے سے نبی کریم صلعم کی بہت سی پیش گویئاں بھی ملتی ہیں جو اس شہر کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہیں۔

پانچویں صدی میں جب رومن سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہوئی تو مشرقی روم کادارالخلافہ یہی شہر تھا، اس ریاست میں روس،وسط ایشیاءاور بلوچستان کا علاقہ مکران بھی شامل تھے، مغربی روم تقریبا ویسا ہی تھا جیسا اب یورپ ہے، مگر دونوں ریاستوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور سیاسی تناؤ جاری رہا، مغربی ریاست میں رومن کیتھولک اور مشرقی میں آرتھوڈوکس کا سکہ چلتا تھا،آیا صوفیہ آرتھوڈوکس کا عالمی مرکز تھا، اس جگہ چرچ تعمیر کرنے کا خیال کونسٹنٹائین کے دماغ میں آیا وہ جب سریر آراءسلطنت ہواءتو ملک میں خانہ جنگی کا ماحول تھا،بادشاہت بکھر چکی تھی عیسائی پادری شاہوں کی عیاشیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے عوام کو متحد کر رہے تھے۔

اسی دوران کانسٹنٹائین نے اعلان کیا کہ اس نے آسمان پر عیسائیت کا پرچم دیکھا ہے اور عیسائیت قبول کر لی، جس کے بعد سلطنت روم باقاعدہ عیسائی ریاست بن گئی،کونسنٹنٹائین نے عیسائی پادریوں کے قتل عام کا حکم منسوخ کر کے بائیبل کی بنیاد پر قانون سازی بھی شروع کر دی، اس کی والدہ نے نن کی حیثیت سے خود کو چرچ کے حوالے کر دیا۔

کونسٹنٹائین نے اپنی والدہ کو بہت سا پیسہ دیکر فلسطین بھیجا تاکہ وہاں عیسائیت کی تبلیغ کرے،اور حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش پر ایک گرجا گھر بنائے یہ چرچ آج بھی عیسائیوں کیلئے مقدس ترین ہے،کونسٹنٹائین نے اپنا دارالحکومت بازنطینیہ منتقل کر دیا،یہ وہ موقع تھا جب رومن ریاست کیساتھ عیسائیت بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی،بازنطینی عیسائیوں کا پہلا بادشاہ جسٹینن تھا جس نے آیا صوفیہ کی تعمیر کا ارادہ کیا، بادشاہ خود اس عمارت کے مکمل ہونے کے بعد اس کی شان وشوکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔

یہ عمارت 900سال آرتھوڈوکس کا مرکز رہی، قارئین کی دلچسپی کیلئے آرتھوڈوکس کے پیرووکار آج بھی دنیا میں موجود ہیں مگر تعداد میں بہت کم ہیں، ان کی زیادہ تر تعداد روس میں مقیم ہے، ماضی میں بہت سی روسی ریاستیں بازنطینی ریاست کا حصہ رہی ہیں اس لئے یہاں آج بھی اس فرقہ کے لوگ آباد ہیں، عیسائیوں کا ایک اور فرقہ میتھاڈوکس بھی ہے اس کے پیروکاروں کی تعداد بھی بہت کم ہے،کیتھڈرل کی سرپرستی اپنے وقت کی سپر پاور روم نے کی جسے بعد میں امریکہ نے اپنا لیا اس لئے اس کے پیروکار بہت زیادہ ہیں۔

1443ءمیں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تو عیسائی پادریوں نے اسی عمارت میں پناہ لی انہیں یقین تھا اس مقدس عمارت میں خون ریزی نہیں کی جائے گی،اس حوالے سے کہاوت مشہور تھی کہ ترک فوج جب قابض ہو گی تو آسمان سے فرشتہ آکر جھنڈا عیسائیوں کو دیگا،مگر سلطان محمد فاتح نے اسلامی اصولوں کے مطابق خون ریزی کے بجائے چرچ میں موجود تمام لوگوں کو پناہ دی، اس حسن سلوک پر بہت سے عیسائی مسلمان ہو گئے، سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کی قیمت ادا کر کے اسے مسجد میں تبدیل کیا،آج 86سال بعد یہ عمارت پھر اللہ اکبر کی صدائوں سے گونج رہی ہے۔

Related Articles

Back to top button