بین الاقوامی

جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے مقدمے میں چاروں پولیس افسران پر فردِ جرم عائد

امریکی ریاست منی ایپلس کے سفید فام افسر پر سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے مقدمے میں سیکنڈ ڈگری یا دوسرے درجے کے قتل کی فرد جرم عائد کردی گئی جبکہ ان کے 3 ساتھیوں کو بھی فرد جرم کا سامنا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذکورہ پولیس افسر نے جارج فلائیڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی شہری کے گردن کو گھٹنے سے دبائے رکھا جس کے بعد وہ دم توڑ گیا، جارج فلائیڈ پر الزام تھا کہ اس نے جعلی نوٹ سے سگریٹ خریدنے کی کوشش کی۔

25 مئی کو رونما ہونے والے اس کے واقعے بعد امریکا کی متعدد ریاستوں میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کے دوران تشدد اور لوٹ مار کے متعدد واقعات بھی رونما ہوئے۔

 

امریکی سینیٹر ایمی کلوبچر نے ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ ’منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن جارج فلائیڈ قتل کیس میں ڈیریک چاوین کے خالف فرد جرم میں اضافہ کررہی ہے اور ان ساتھ ہی ان کے 3 ساتھیوں پر بھی فردِ جرم عائد کی جارہی ہے‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ڈیریک چاوین پر تھرڈ ڈگری یا تیسرے درجے کے قتل کی فرد جرم عائد کی گئی تھی جو تقریباً غلطی سے قتل کے مشابہہ ہوتی ہے تاہم دوسرے درجے کے قتل کی فرد جرم سوچے سمجھے قتل کی نشاندہی نہیں کرتی البتہ اس پر سخت سزا دی جاسکتی ہے۔

عدالتی دستاویز کے مطابق دوسرے درجے کے قتل کی فرد جرم کو پہلے سے موجود فرد جرم میں شامل کردیا گیا جبکہ دیگر 3 افسران کو دوسرے درجے کے قتل میں معاونت اور ہمت افزائی کے الزام کا سامنا ہے۔

ان افسران میں 34 سالہ ٹو تھاؤ، 26 سالہ جے الیگزینڈر اور 37 سالہ تھامس لین شامل ہیں جنہیں حراست میں لے لیا گیا ہے، چاروں افسران کی حراست مظاہرین کا بنیادی مطالبہ تھا۔

دوسری جارج فلائیڈ کے اہلِ خانہ نے ایک بیان میں پولیس افسران کے خلاف نئی فرد جرم کو ’ تلخ و شیریں لمحہ‘ قرار دیا۔

مظاہرین کا نئی فرد جرم کا خیر مقدم، احتجاج پھر بھی جاری

دوسری جانب جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے پولیس افسران کے خلاف نئی فردِ جرم کا خیر مقدم کیا تاہم امریکا بھر میں مسلسل نویں رات بھی ہزاروں افراد کا مارچ جاری رہا جو پولیس کی بے رحمی اور نسل پرستی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

سب سے اہل مطالبہ پورا ہونے کے باوجود مظاہرین نے نیویارک سے لاس اینجلس تک بڑی اور پر امن ریلیاں نکالیں جن میں حقیقی تبدیلی کے مطالبے کیے گئے۔

اس ضمن میں احتجاج میں شامل ایک شخص کا کہنا تھا کہ فرد جرم ایک ’اچھا آغاز‘ ہے لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ مظاہرین ’اپنے احتجاج کا حق اس وقت تک استعمال کرتے رہیں گے جب تک ہر سیاہ فام کو اس کے حق کے مطابق انصاف نہیں مل جاتا‘۔

ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ ’یہ کافی نہیں، اسے ایک ہفتے قبل ہی ہوجانا چاہیے تھا لیکن اس وقت تک نہیں ہوا جب تک لوگوں سے سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ نہ شروع کردی جس سے لوگ اس جانب متوجہ ہوئے‘

 

 

Related Articles

Back to top button