بین الاقوامی

"میں سانس نہیں لے پا رہا” کے نعروں سے امریکا گونج اٹھا، صدر ٹرمپ ہواس باختہ

امریکا میں نسلی تعصب کی بنیاد پر نفرت انگیز کارروائیوں میں اضافہ ہونے لگا، سیاہ فام شہری کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے واقعے کے بعد سیاہ فام شہریوں میں احساس عدم تحفظ بڑھنے لگا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی انصاف کے متلاشیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کرتے ہوئے انہیں چور اور ٹھگ قرار دیتے ہوئے کچلنے کا حکم دیا۔

سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد امریکہ میں شروع ہونے والے ہنگاموں کے باعث 13 شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور متعدد ریاستیں میدان جنگ کا منظر پیش کر رہی ہیں۔

ملک بھر میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور مشتعل افراد نے صدر ڈونلڈٹرمپ کی تنبیہ کو نظرانداز کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکومت پرتشدد مظاہروں کے ساتھ سختی سے نمٹے گی۔

لاس انجلیس سمیت تیرہ شہروں میں کرفیو نافذ ہے اور نیشل گارڈز بھی تعینات کر دیے گئے ہیں جب کہ وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی مظاہرہ کیا گیا جس کے بعد انتظامیہ نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر وائٹ ہاؤس کو کچھ دیر کے لیے بند کر دیا تھا۔

امریکی ریاست مینیسوٹا میں سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے بعد مظاہروں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ واشنگٹن، نیویارک، لاس اینجلس، ہوسٹن، اٹلانٹا اور لاس ویگاس سمیت کئی شہروں میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔

متعدد شہروں میں کرفیو کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے نیشنل گارڈز تعینات کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات میں کمی نہیں آئی۔

ریاست مینیسوٹا اور لاس اینجلس میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے جہاں کرفیو کے باوجود مظاہرین نے کئی سپراسٹورز پر دھاوا بولا اور لوٹ مار کی ہے۔

لاس اینجلس میں پولیس کی جانب سے مظاہرین پر ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا گیا ہے اور اس کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پینٹاگون کو ہدایت کی ہے کہ مینیسوٹا میں تعینات کرنے کیلئے ملٹری پولیس کو الرٹ رکھا جائے۔

وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی سیکڑوں مظاہرین نے سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا اور’میں سانس نہیں لے پا رہا‘ کے نعرے بلند کیے۔

Related Articles

Back to top button