بین الاقوامی

ولادیمیر پوتن کو روس کا صدرکس نے بنوایا تھا ؟ ایسا نام سامنے آگیا کہ آپ چکرا کر رہ جائیں گے

زارز کو اقتدار پیدائشی طور پر ملا، ولادیمیر لینن انقلاب کے ذریعے آئے، سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹریز پارٹی پولیٹبیورو کی سیڑھی پر چڑھ کر اور اعلیٰ عہدے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر کے طاقت میں آئے۔

لیکن 20 برس قبل ولادیمیر پوتن کو اقتدار پلیٹ میں رکھ کر سونپا گیا۔ نامور صحافی سٹیو روزنبرگ ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔ روس کے اس وقت کے صدر بورس یلسن اور ان کے قریبی حلقے نے روس کی سکیورٹی سروس کے سابقہ افسر پوتن کو 21 ویں صدی میں روس کی نمائندگی کے لیے چنا۔ ویلنٹین یوماشیو نے ولادیمیر پوتن کے روس کے صدر بننے میں اہم کردار ادا کیا۔

سابقہ صحافی اور بورس یلسن کی حکومت میں شامل رہنے والے ویلنٹین یوماشیو انٹرویو کم ہی دیتے ہیں لیکن وہ مجھ سے ملنے اور اپنی کہانی سنانے پر رضامند ہو گئے۔ یوماشیو بورس یلسن کے سب سے قابل اعتماد ساتھیوں میں سے ایک تھے، انھوں نے یلسن کی بیٹی تاتیانہ سے شادی بھی کی۔ یلسن کے چیف آف سٹاف کی حیثیت سے سنہ 1997 میں انھوں نے پوتن کو کریملن میں پہلی ملازمت دی۔ ولادیمیر پوتن اگست 1999 میں وزیر اعظم تعینات ہوئے جس کے بعد 31 دسمبر کو وہ بورس یلسن کی جگہ صدر منتخب ہوئی۔

یوماشیو یاد کرتے ہیں ’یلسن کے سبکدوش ہونے والے انتظامیہ کے سربراہ اناطولی چوبیاس نے مجھے بتایا کہ وہ ایک مضبوط مینیجر کو جانتے ہیں جو میرے لیے اچھا نائب بنے گا۔‘انھوں نے مجھے ولادیمیر پوتن سے ملوایا اور ہم نے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا۔ جلد ہی پوتن کے بہترین کام نے میری توجہ حاصل کر لی۔ ’وہ نظریات مرتب کرنے، اپنے معاملے کا تجزیہ کرنے اور اس پر بحث کرنے میں ذہین تھے۔‘میں نے ان سے پوچھا ’کیا کوئی ایسا لمحہ تھا جب آپ کو لگا کہ یہ شخص صدر بن سکتا ہے۔‘انھوں نے جواب دیا:

’یلسن کے دماغ میں مختلف امیدوار تھے جیسے کہ بورس نیمٹسو، سرگئی ستاپشین اور نکولئی ایکسینکو۔ میں نے اور یلسن نے ممکنہ جانشینوں کے بارے میں بہت بات کی اور ایک موقع پر ہم نے پوتن پر بھی بات کی۔یلسن نے مجھ سے پوچھا: ’آپ کا پوتن کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘ میں نے جواب دیا ’میرے خیال میں وہ ایک شاندار امیدوار ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو ان کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

وہ جس طرح سے اپنا کام کرتے ہیں اس سے واضح ہے کہ وہ اس سے مشکل کام کے لیے تیار ہیں۔‘ پوتن کی طرح کے جی بی کے بہت سے ایجنٹس نے تنظیم کی بدنامی کے بعد اسے چھوڑ دیا تھا۔ یہ حقیقیت معنی نہیں رکھتی تھی کہ وہ پہلے کے جی بی آفیسر تھے۔ پوتن لبرل اور ڈیموکریٹ تھے جو اصلاحات کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔

‘اگست 1999 میں بورس یلسن نے ولادیمیر پوتن کو وزیرِ اعظم تعینات کر دیا۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ صدر یلسن پوتن کو صدارت کے لیے تیار کر رہے تھے۔یلسن کو ابھی اقتدار میں مزید ایک برس رہنا تھا لیکن دسمبر 1999 میں انھوں نے جلدی جانے کا حیرت انگیز فیصلہ کر لیا۔نئے سال سے تین دن قبل یلسن نے پوتن کو اپنی رہائش گاہ پر طلب کیا۔ انھوں نے مجھے اور اپنے نئے چیف آف سٹاف الیگزینڈر وولوشن کو موجود رہنے کا کہا۔ انھوں نے پوتن کو بتایا کہ وہ جولائی تک اقتدار میں نہیں رہیں گے اور 31 دسمبر کو مستعفی ہو جائیں گے۔‘صرف چند ہی لوگوں یعنی وولوشن، پوتن اور یلسن کی بیٹی تاتیانہ کو اس کا علم تھا۔

حتیٰ کہ یلسن نے اپنی بیوی کو بھی اس بارے میں نہیں بتایا۔‘یوماشیو کو یلسن کے استعفے کی تقریر لکھنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔یہ تقریر لکھنا مشکل تھا۔ یہ واضح تھا کہ یہ الفاظ تاریخ کا حصہ بنیں گی۔ پیغام اہم تھا۔ اسی لیے میں نے مشہور لائن لکھی ’مجھے معاف کر دیں۔‘روسی عوام نے 1990 کی دہائی میں شدید صدمے اور تناؤ کا سامنا کیا تھا۔ یلسن اس بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔‘ نئے سال کی شام کے موقع پر بورس یلسن نے کریملن میں اپنا آخری ٹی وی خطاب ریکارڈ کروایا۔

وہاں موجود سب لوگوں کے لیے یہ ایک دھچکا تھا، سوائے میرے، جس نے یہ تقریر لکھی تھی۔ لوگ زار و قطار رونے لگے۔ وہ بہت ہی جذباتی لمحہ تھا۔‘ لیکن ضروری تھا کہ یہ خبر باہر نہ نکلے۔ سرکاری اعلان میں ابھی بھی چار گھنٹے باقی تھے۔ تو کمرے میں موجود سب لوگوں کو بند کر دیا گیا۔ انھیں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ میں نے ریکارڈنگ لی اور ٹی وی سٹیشن کے لیے نکل پڑا۔ تقریر کو دوپہر میں نشر کیا گیا۔‘

ولادیمیر پوتن قائم مقام صدر بن گئے۔ تین ماہ بعد انھوں نے الیکشن جیت لیا۔ویلنٹین یوماشیو کو اکثر ’خاندان‘ یعنی بورس یلسن کے اندرونی حلقے کا رکن کہا جاتا ہے۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس ’خاندان‘ نے مبینہ طور پر 1990 کی دہائی کے اواخر میں ان پر دباؤ بڑھایا۔مگر یوماشیو اس ’خاندان‘ کو ایک مفروضہ اور من گھڑت بات قرار دیتے ہیں۔لیکن اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ 1990 کی دہائی کے دوران صدر یلسین اپنی صحت خراب ہونے کے بعد رشتے داروں، دوستوں اور کاروباری شخصیات پر مشتمل ایک تنگ دائرے پر زیادہ سے زیادہ اعتماد کرنے لگے تھے۔

سیاسی سائنس دان ویلری سولووئی کہتی ہیں ’پوتن کا قریبی حلقہ ان پر ایسے اثرانداز نہیں ہوتا۔‘بورس یلسن (بائیں طرف) اور روسی صدر ولادیمیر پوتن مئی سنہ 2000 میں ماسکو میں وکٹری ڈے کی پریڈ کے دوران پوتن کا جھکاؤ دو طرح کے لوگوں کی جانب ہوتا ہے: بچپن کے دوست، جیسے کہ روٹنبرگ برادرز اور وہ جنھوں نے سوویت کے جی بی میں کام کیا ہو۔‘لیکن وہ ان کی وفاداری کے بارے میں زیادہ خوش فہم نہیں۔ یلسن کو اپنے خاندان کے ارکان پر بھروسہ تھا۔ پوتن کسی پر بھی اعتبار نہیں کرتے۔‘کوئی افسوس نہیں، روسی عوام پوتن پر اعتماد کرتےہیں ۔پوتن 20 سال سے بحیثیت صدر یا وزیرِ اعظم اقتدار میں رہے ہیں۔

اس دوران انھوں نے طاقت کا ایسا نظام قائم کیا ہے جو ان کی ذات کے گرد گردش کرتا ہے۔ ان کے زیر سایہ روس تیزی سے ایک مطلق العنان ریاست بنا ہے جہاں جمہوری حقوق اور آزادیاں کم ہی ہیں۔ سولووئی کہتے ہیں ’یلسن کو یقین تھا کہ ان کا ایک مشن ہے اور پوتن بھی ایسا ہی سوچتے ہیں۔ یلسن نے خود کو بطور موسیٰ دیکھا: وہ اپنے ملک کو اس کی کمیونسٹ غلامی سے نکالنا چاہتا تھے۔‘پوتن کا مشن ماضی میں واپس جانا ہے۔

وہ سوویت یونین کے خاتمے کا انتقام لینا چاہتے ہیں جسے وہ ’بیسویں صدی کی جغرافیائی سیاست کا سب سے بڑا سانحہ‘ سمجھتے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھی سابق کے جی بی افسران مانتے ہیں کہ سوویت یونین کی تباہی مغربی انٹلیجنس کا کام ہے۔‘آج کے ولادیمیر پوتن اس لبرل شخصیت سے بہت مختلف ہیں جو یوماشیو کو یاد ہے۔ تو کیا پوتن کے سابق باس کو اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا ہوتا ہے؟یوماشیو نے مجھے بتایا اور کہا: ’مجھے کوئی افسوس نہیں۔ یہ واضح ہے کہ روس کے لوگ اب بھی پوتن پر اعتماد کرتے ہیں۔‘لیکن پھر بھی یوماشیو کا خیال ہے کہ بورس یلسن کا استعفیٰ روس کے تمام صدور کے لیے ایک سبق ہے ’کہ نوجوان لوگوں کے لیے راستہ چھوڑ کر سبکدوش ہوجانا بہت اہم ہے۔ یلسن کے لیے یہ ناقابل یقین حد تک اہم تھا۔‘

 

Related Articles

Back to top button