بین الاقوامی

امریکا کا بھارتی وزیر داخلہ اور دیگر اہم سیاسی رہنماؤں پر پابندی لگانے پر غور۔۔۔لیکن کیوں؟ بڑی وجہ نے بھارت کو سخت تشویش میں ڈال دیا

امریکی فیڈرل ایجنسی بین الاقوامی مذہبی آزادی برائے کمیشن (یو ایس سی آئی آر ایف) نے بھارت کے دونوں ایوانوں سے متنازع شہریت ترمیمی بل (سی اے بی) منظور ہونے کی صورت میں بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور دیگر اہم قیادت کے خلاف پابندیوں کی خواہش ظاہر کردی۔

واضح رہے کہ بھارت کے ایوان زیریں (لوک سبھا) نے 80 کے مقابلے میں 311 ووٹوں سے متنازع بل منظور کرلیا ہے۔

مذکورہ بل راجیہ سبھا یعنی ایوان بالا میں پیش کیا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد بل کی توثیق ہوجائے گی۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے باضابطہ طور پر ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ‘کمیشن کو شہریت ترمیمی بل کی منظوری پر سخت تشویش ہے اور یہ بل مذہب کی بنیاد پر ہے۔

کمیشن کے بیان میں امریکی پابندیوں کے بارے میں امیت شاہ کا بھی ذکر کیا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا ‘اگر بل دونوں ایوانوں سے منظور ہوجاتا ہے تو امریکا کی حکومت کو بھارتی وزیر داخلہ اور دیگر اہم قیادت کے خلاف پابندیوں پر غور کرنا چاہیے’۔

امریکی کمیشن نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘شہریت کا ترمیمی بل دراصل مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر خارج کرنا ہے اور بل ایک قانونی طریقہ ہے’۔

بھارت کی ہندو انتہا پرست حکومت کے اس اقدام سے آگاہ کرتے ہوئے کمیشن نے متنبہ کیا کہ ‘متنازع بل غلط سمت میں ایک خطرناک عمل ہے، یہ بھارت کے سیکولر نظریے اور آئین کی بھرپور تاریخ کے خلاف ہے جو قانون کے سامنے کسی عقیدے یا برابری کی ضمانت نہیں دیتا’۔

کمیشن نے کہا کہ ‘وزیر داخلہ کی تجویز پر بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے تحت 19 لاکھ افراد شہریت سے محروم کردیے گئے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے’۔

امریکی ادارے نے کہا کہ یو ایس سی آئی آر ایف کو خدشہ ہے کہ بھارتی حکومت ہندوستانی شہریت کے لیے ایک مذہبی ‘امتحان’ تشکیل دے رہی ہے جو لاکھوں مسلمانوں سے شہریت چھین لے گی۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے شہریت کا متنازع بل منظور کرنے پر جہاں بھارت میں شدید احتجاج جاری ہے وہیں بین الااقوامی سطح پر بھی اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اس معاملے پر وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک ٹوئٹ کی اور کہا کہ ‘ہم لوک سبھا میں متنازع شہریت سے متعلق قانون سازی کی شدید مذمت کرتے ہیں، جس میں انسانی حقوق کے تمام قوانین اور پاکستان کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ توسیع پسندی دراصل آر ایس ایس کے ‘ہندو راشٹرا’ ڈیزائن کا ایک حصہ ہے جس کو فاشسٹ مودی سرکار نے پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا

واضح رہے کہ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوان زیریں میں شہریت ترمیمی بل متعارف کرایا تھا۔

اس مجوزہ قانون پر بھارت کی حزب اختلاف کی جماعتوں نے احتجاج کیا، جس کے تحت پہلی مرتبہ مذہب کی بنیاد پر بھارتی شہریت دینے کے لیے ایک قانونی راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔

مذکورہ بل مودی سرکار نے پہلی مرتبہ 2016 میں پیش کیا تھا لیکن احتجاج اور اتحادیوں کی جانب سے دستبرداری کے بعد معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔

بل میں 2015 سے پہلے بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے بھارت آنے والے غیر مسلموں کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز ہے۔

شہریت ترمیمی بل ہے کیا؟

واضح رہے کہ شہریت بل کا مقصد پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔

اس بل کی کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ ساتھ انتہا پسند ہندو جماعت شیوسینا نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ مرکز اس بل کے ذریعے ملک میں مسلمانوں اور ہندوؤں کی تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

بھارتی شہریت کے ترمیمی بل 2016 کے تحت شہریت سے متعلق 1955 میں بنائے گئے قوانین میں ترمیم کی جائے گی۔

اس بل کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔

اس بل کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ بل کے تحت غیر قانونی طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو تارکین وطن کو شہریت دی جائے گی جو مارچ 1971 میں آسام آئے تھے اور یہ 1985 کے آسام معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔

خیال رہے کہ آسام میں غیر قانونی ہجرت ایک حساس موضوع ہے کیونکہ یہاں قبائلی اور دیگر برادریاں باہر سے آنے والوں کو قبول نہیں کرتیں۔

Related Articles

Back to top button