بین الاقوامی

سعودی عرب میں 500 سال پرانہ گاؤں دیکھ کر سب حیران۔۔۔

سعودی عرب کے بارے میں عمومی طور یہی رائے قائم ہے کہ یہ لق و دق صحراؤں پر مبنی ملک ہے مگر یہ تاثر مجموعی طور پر درست نہیں ہے کیوں کہ یہاں بھی کچھ ایسے علاقے ہیں جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی طرح سرسبز ہیں اور یہاں پانی کی بھی فروانی ہے۔

سعودی نشریاتی ادارہ العربیہ نے حال ہی میں ایک ایسے علاقے پر رپورٹ لکھی ہے جس میں ایک ایسے علاقے کا ذکر کیا گیا ہے جہاں کچے مکانات، ہریالی، چشمے اور سرسبز پہاڑ بھی پائے جاتے ہیں۔

سعودی عرب کے جنوب مغرب میں واقع جبل عال کی چوٹی پر ایک پرانے گاؤں میں بنے مکانات آج بھی وہاں کے طرز بودو باش کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ‘اصفہ’ نامی یہ گائوں ٹھنڈے میٹھے اور تازہ پانی، سبزیوں، پھلوں، چٹانوں او پہاڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اصفہ کسی دور میں ایک آباد گاؤں تھا مگر اب وہاں صرف بوسیدہ اور کچے مکانات رہ گئے ہیں۔
اصفہ کے بارے میں ایک مقامی شہری حسن مسفر المالکی نے بتایا کہ یہ گائوں بنی مالک الحجاز کی بستیوں میں سے ایک ہے۔ یہ علاقہ میسان گورنری کے تحت آتا ہے جو طائف سے جنوب میں 170 کلو میٹر دور ہے۔ اس گائوں کی تاریخ 500 سال پرانی ہے۔ اس کے جنوب مغرب میں جبل بثرہ واقع ہے جو کوہ السروات کی دوسری بلند ترین چوٹی تصور کی جاتی ہے۔

سعودی عرب میں 500 سال پرانہ گاؤں دیکھ کر سب حیران۔۔۔

حسن مسفر المالکی نے بتایا کہ ‘اصفہ’ کے پہاڑوں سے سال بھر تازہ پانی جاری رہتا ہے۔ یہاں پر کئی اقسام کے پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ ان میں انگور، کشمش اور انار و دیگر پھل شامل ہیں۔

سعودی عرب میں 500 سال پرانہ گاؤں دیکھ کر سب حیران۔۔۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اصفہ کے باشندوں کی تعداد 2000 کے لگ بھگ تھی جو سب کے سب قریبی شہروں میں چلے گئے ہیں اور ان کے پرانے اور بوسیدہ مکانوں کے صرف کھنڈرات بچے ہیں۔ اگرچہ یہاں پر اب آبادی نہیں رہی مگریہ جگہ سیاحوں اور فطرت کے دلدادہ لوگوں کے لیے غیرمعمولی کشش رکھتا ہے۔

 

Related Articles

Back to top button