کاروباری خبریں

پاکستان میں لوگ آج کل کاریں کیوں نہیں خرید رہے ؟ حیران کن رپورٹ سامنے آگئی

پاکستان میں گذشتہ ایک سال میں کاروں کی قیمتوں میں کافی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام میں گاڑیاں خریدنے کے رجحان میں واضح کمی نظر آ رہی ہے۔

ملک میں کاریں بنانے والے بڑے صنعتی پلانٹس اپنی پیداوار میں تیزی سے کمی لاتے ہوئے پیداوار کے دنوں میں کمی کر رہے ہیں۔  یعنی آئندہ چند ماہ میں بھی یہ رجحان ٹوٹتا نظر نہیں آتا۔ نومبر 2019 میں پاکستان میں کاروں کی پیداوار جنوری 2019 کے مقابلے میں تقریباً ایک تہائی رہ گئی ہے۔ مارچ 2016 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے متعارف کروائی گئی آٹوموبیل پالیسی کے بعد سے گذشتہ ماہ ملک میں گاڑیوں کی پیداوار کی کم ترین سطح ریکارڈ کی گئی۔

بلکہ نومبر 2019 کی سطح سے کم پیداوار آخری بار تقریباً سات سال قبل دسمبر 2012 میں ہوئی تھی۔ گاڑیوں کی قیمتیں تو ماضی میں بھی بڑھتی رہی ہیں مگر اس مرتبہ اس قدر تیزی سے کیوں بڑھی ہیں؟ پہلی وجہ تو ہے ڈالر کی قیمت۔ اس سال کے آغاز سے اب تک پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے کاروں کی تیاری کے لیے درکار درآمدات کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے کاروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔

اس کے علاوہ گذشتہ بجٹ میں حکومت نے گاڑیوں پر اضافی ٹیکس بھی لگایا۔ ضمنی مالی بجٹ کے دوسرے ترمیمی ایکٹ 2019 کے ذریعے 1700 سی سی اور اس سے اوپر والی گاڑیوں پر 10 فیصد سے زیادہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) متعارف کروائی گئی تھی۔ بعد میں ایف ای ڈی کے دائرہ کار کو بڑھایا گیا اور 1000 سی سی تک کی کاروں پر 2.5 فیصد، 1001 سی سی سے 2000 سی سی تک کی کاروں پر 5 فیصد اور 2001 سی سی اور اس سے اوپر والی کاروں پر ایف ای ڈی کو بڑھا 7.5 فیصد کر دیا گیا۔

پاکستان میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کی ویب سائٹ پاک ویلز کے چیئرمین سنیل منجھ نے بی بی سی کو بتایا کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک گاڑیوں کی اضافی طلب تھی اور کاریں ’اون‘ پر بکتی تھیں۔ ’اون‘ پاکستان میں عام طور پر اس اضافی قیمت کو کہا جاتا ہے جو کہ صارف گاڑی خریدتے وقت بکنگ کی مدت انتظار کرنے کے بجائے بطور منافع دے کر فوری گاڑی حاصل کر لیتا ہے۔ ’اس وقت کسی عقلمند نے حکومت کو مشورہ دیا کہ آپ اس ’اون‘ کو انٹرنلائز (اپنے حصے میں) کر لیں۔ بالکل وہی بریکٹ بنایا گیا، جس گاڑی پر جتنا اون تھا اتنی ہی ایف ای ڈی لگا دی گئی۔

اگر کرنسی نہ گرتی تو صارف تو پہلے بھی 25 لاکھ والی گاڑی 28 لاکھ میں لے رہا تھا۔ اُس کو فرق نہیں پڑتا کہ یہ رقم سرمایہ کار کی جیب میں جائے یا حکومت کی۔ بدقسمتی سے ہوا یہ کہ کرنسی گر گئی اور وہ گاڑیاں 40 لاکھ پر پہنچ گئیں۔‘ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جیسے جیسے گاڑیاں عام شہری کی دسترس سے نکلتی گئیں وہیں کاریں بنانے والی کمپنیوں نے اپنی پیداوار بھی کم کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں بننے والی کاروں کا تقریباً 70 فیصد حصہ مقامی طور پر تیار کیا جاتا ہے، مگر ان کی تیاری کے لیے بھی کچھ خام مال درآمد کیا جاتا ہے جس کی قیمت پر ڈالر کی قدر کا اثر پڑتا ہے۔

اس کے برعکس اگر ملک میں موٹر سائیکلوں یا تین پہیوں والی سواریوں کی پیداوار اور فروخت کو دیکھا جائے تو حالات اتنے برے نہیں ہیں۔

Related Articles

Back to top button